لاہور: وفاقی وزیر قانون اور اطلاعات علی ظفر نے کہا ہے کہ حکومت احتساب عدالت کے حکم پر من و عن عمل کرے گی اور سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی پاکستان کے کسی بھی ایئرپورٹ پر آمد پر انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔لاہور پریس کلب میں ’میٹ دی پریس‘ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کو ریاستی اداروں کے کام میں مداخلت یا ان کے فیصلوں پر تنقید کا کوئی اختیار نہیں اور اگر کسی کو عدالت کے کسی فیصلے پر تحفظات ہیں تو وہ اس کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان پہنچنے سے قبل اگر نواز شریف اور مریم نواز ضمانت حاصل نہیں کرتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں ایئرپورٹ پر گرفتار کرلیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ شریف خاندان کے خلاف عدالتی فیصلے سے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات پر اثر نہیں پڑے گا اور انتخابات اپنے مقررہ وقت پر آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انداز میں ہوں گے۔
اس موقع پر سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نام ڈالنے سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست کا صحیح طریقے سے جائزہ لے۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات بھی کو تسلیم کیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر ای سی ایل میں نام ڈالنا ایک عام طریقہ کار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی درخواستوں کے بغیر لوگوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے پر ماضی میں عدالت کی جانب سے حکومت کی سرزنش کی گئی اور بہت سے لوگوں کو رعایت دی گئی، تاہم نگراں حکومت ای سی ایل میں نام ڈالنے سے قبل ہر درخواست کو دیکھ رہی ہے اور درخواست کے حوالے سے تفتیشن کاروں سے سوالات کرر ہی ہے۔
نگراں وزیر قانون و اطلاعات نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے 50 سے 60 لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی علیحدہ درخواستوں پر تبادلہ خیال کیا تھا اور جائزہ لینے کے بعد متعدد کا نام فہرست میں ڈال دیے جبکہ دیگر درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ 2 مرحلوں پر مشتمل مشاورتی عمل ہے جس سے حکومت کو ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق منصفانہ فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے‘۔
اس موقع پر انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے قریبی دوست زلفی بخاری کے معاملے پر کہا کہ ان کا نام کبھی ای سی ایل میں نہیں تھا بلکہ ان کا نام عارضی طور پر ’ بلیک لسٹ‘ میں تھا جو سیکریٹری داخلہ کی سطح پر فیصلے کے بعد ڈالا جاتا ہے۔