تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی
حضرت محمد نے فرمایا جو شخص مزدور ،ملازم پر ظلم کرے گا اللہ اس کے ہر نیک عمل کو ضائع کر دے گا ۔اور اس ظالم شخص پر جہنم واجب کر دے گا ]امالی صدوق ص ٣٣٨[ میاں محمد نواز شریف آپنے اپنے اقتدار کے دوسرے دور میں مورخہ 13 اکتوبر1997کو اپنی ظالمانہ نجکاری کی دھشت گردی کے تحت یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ کے 5416ملازمین کو غیر منصفانہ طریقہ سے ملازمتوں سے جبری برخاست کر کے انکو بیروزگار کیا ہوا ہے بلکہ ان کے خاندانوں کا معاشی قتل کر کے ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے زندہ دفن کر دیا گیا ہوا ہے آپنے گولڈن ھینڈ شیک پالیسی کے تحت انکو 100فیصد مراعات دینے کی بجائے پچاس فیصد مراعات دیکر فارغ کر دیا گیاہوا ہے اور بقایا پچاس فیصد مراعات بحق سرکار بطور بھتہ ضبط کر کے اس کو اپنی سیاسی کرپشن میں استعمال کی ہے بلکہ اس رقم کو اپنی ظالمانہ نجکاری کی پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیئے کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ میں استعمال میں لائی گئی ہے میاں نواز شریف کی مجرمانہ کرپشن کا کھلا ثبوت ہونے کے باوجودصحافی حضرات و میڈیا والے اس مجرمانہ کرپشن کو اپنا مضمون بنانے سے کیوں کترا رہے ہیں بلکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کرپٹ جمہوریت کو برقراررکھنے کے لیئے دیدہ دانستہ چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے جبکہ کرپٹ جمہوریت نے انہیں سیاسی نذرانہ دے کر خاموش کر دیا ہوا ہے
آج تک یہ متاثرین جبری برخواست شدہ ملازمین حکمران طبقہ کی ظالمانہ نجکاری کی دھشت گردی کی چکی میں پس رہے ہیں اور انصاف کے ساتھ حق تلفی کے ازالہ سے محروم ہیں ۔پاکستان کی عدلیہ نے بھی حکمران طبقہ کی کرپشن ،بد عنوانیوں ،سیاسی قتل و غارت ،اور دھاندلی ثابت ہونے کے باوجود کرپٹ جمہوریت کو بے نقاب نہ کر کے انساف کا جنازہ نکال دیا ہے جس کی وجہ سے اس ملک کی پوری قوم سراپا احتجاج ہے یاد رکھیں سو دن چور کا ہوتا ہے ایک دن اس کے انجام کا ہوتا ہے ۔عنقریب یہی عدلیہ ان کو صدام حسین ،کرنل قذافی ،ذین العابدین اور محمد مرسی کے انجام کی طرح حکمران طبقہ کو کیفر کردار تک پہنچائے گی کیو نکہ زمین و آسمان کا مالک اللہ ہی ہے اللہ انصافپسند کرتا ہے اور انصف کرنے کا حکم دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متاثرین جبری برخواست شدہ ملازمین 1997 یونائیٹڈ بنک لمٹیڈ،انصاف ہمارا حق ہے
متاثرین یونائیٹڈ بنک کا یہ لیٹر کوئی دو سال سے مجھے ہر دوسرے تیسرے روز ملتا ہے اور صرف مجھے ہی نہیں شائد اکثر کالمنسٹ کو مل چکا ہے میری بہن محترمہ رفعت مظہر اس پر کالم بھی لکھ چکی ہیں ،میں نے بھی اس پر لکھا تھا ”بتوں سے تجھ کو امیدیں ” اور میں نے تب بھی لکھا تھا کہ جتنی جدوجہد آپ لوگ ان بتوں کو منانے میں کر رہے ہیں اتنی دعائیں خدا کے آگے کر لیں تو شائد کچھ پا لیں یہ لوگ کسی کو کچھ دینے والے ہوتے تو صرف انصاف ہی دے دیتے ان کو اللہ نے بادشاہی دی ہے وہ بھول گئے ہیں کہ وہ واپس چھین بھی سکتا ہے شائد اس میں ان کا بھی اتنا قصور نہ ہو ان کے ارد گرد جو لوگ ہوتے ہین وہ انکی آنکھیں اور کان بند کر کے خود ہی ان کی زبان بن جاتے ہیں اور داد و انعام کے مستحق ٹھیرتے ہیںانعام لینے والا یہ کبھی نہیں دیکھتا کہ اس میں کتنے دلوں کا خون شامل ہے اس کو تو بس چاپلوسی سے اپنے عیش بنانے ہوتے ہیں۔
اسے ملکی استحکام برا لگتا ہے وہ اپنی سازشوں کو بھی دوسروں کی جھولی میں ڈال دیتا ہے ایسے پکے سازشی لکھنے والے ہمیشہ فرنٹ پیج پہ جگہ پاتے ہین لیکن اللہ اسی دنیا میں انکی شکل پہ پھٹکار پرساتا ہے انکی منحوس شکلیں چیخ چیخ کر کہتی ہیںکہ ہم اہل زر کے غلام ہیں ۔آخر کیا وجہ تھی کہ اللہ کے نیک بندے حاکموں سے کنارہ کش رہا کرتے اور انہیں اپنی کچی جھونپڑیوں میں بھی آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اگر کوئی یہ سمجھے کہ ابھی عیش کر لیں چار دن کی زندگی ہے تو وہ جان لیں کہ جو اس دنیا میں جتنے عیش کرے گا وہاں اتنا ہی حساب دے گا خلق تو فریاد کرے گی یونائیٹڈ بنک کے ملازمین اب بد دعائوں پہ اتر آئے ہیں کیونکہ کمزور کا زور بس اسی پہ چلتا ہے مگر زور آورکسی خوش فہمی میں نہ رہیں حساب کا دن بس آیا ہی چاہتا ہے چھوٹے چھوٹے پودے تو اس آندھی میں لیٹ جاتے ہیں روندے جاتے ہیں بڑے درخت جڑ سے اکھرتے ہیں اور درخت کبھی دوبارہ جڑ نہیں پکڑتا ۔۔۔۔پاکستان اللہ کے نام پر بنا اور اس کی محافظ فوج ہے ایک سازشی کو فوج ایک ”تکلیف ” لگتی ہے جو پاکستان کو جہیز میں ملی ہے تو بھئی آپ انڈیا چلے جائو وہاں سے بیٹھ کر پاکستانی فوج سے لڑو اس ملک کا ٹکڑا توڑنا
ضروری ہے؟ قائد اعظم تو پاکستان بنتے ہی چل بسے۔کسی نہ کسی کو تو ملک چلانا تھا فالج زدہ لوگ ملک چلاتے رہے آپ کو تکلیف نہیں ہوئی جن کی تھوکیں صاف کرنے والی ہاتھ میں قلم پکڑا کر فیصلے لکھوایا کرتی تھی؟قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں مس بورل نیم امریکن نیم سوس لڑکی تھی جو گورنر جنرل غلام محمد واشنگٹن سے اپنے لیے منتخب کر کے لائے تھے یہ ان کی پرسنل پرائیویٹ سیکرٹری مس روتھ بورل تھی ۔جو گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کی غوں غاں سنتی اور سمجھتی تھی اور اس غوں غاں پہ عمل کراتی تھی ،مگر ہما رے معزز لکھاری کبھی اس ٹاپک کو نہیں چھیڑتے ،پتہ نہیں یہ کونسی جمہوریت تھی جس میں برٹش اور امریکی سکہ چلتا تھا (میرا خیال ہے نئی نسل کو شہاب نامہ ضرور پڑھنا چاہیے) جس طرح آج اردو بولنے والے الطاف حسین جیسے ذہنی مریض کے غلام بنے ہوئے ہیں وہ بھی کچھ ایسی ہی چیز تھی جانے کیا خوبی تھی اس میں جو ایوب خان میں نہ تھی جس کی دھشت سے دشمن کانپتے تھے جس کی عظمت کے گیت امریکن قوم نے بھی گائے تھے۔
وہ سارا نصاب تو بدلا جا رہا ہے اب تو صرف نئی نسل کو یہ علم ہے میاں برادران ہی ہمارے نجات دھندہ ہیں اور ہمیں قبروں میں پہنچانے تک رہیں گے میٹرو میں ہی یہ نسل جمے گی پلے گی جھولے کھائے گی اور جاہل بیمار ہو کے مر جائے گی ۔اگر اس ملک سے سازشی ڈھونڈنے نکلو تو ہر سرکاری ڈیسک پہ بیٹھے مل جائیں گے مگر جنھیں عزت راس نہیں انہیں صرف فوج ہی ہر برائی کے پیچھے نظر آتی ہے ۔حالانکہ ہر مصیبت سے ان کی جان فوج ہی چھڑاتی ہے اور یہ کہتے ہیں پانچ سات قصیدہ گو ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر فوج کو لانا چاہتے ہیں ۔ویسے موصوف کو فوج تو بری لگتی ہی ہے مشرف کا نام ہی ان کا دل چیر دیتا ہے مگر انہیں پی ٹی آئی بھی پسند نہیں ،پی پی پی بھی نہیں بھائی ،مسلم لیگ بھی اچھی نہیں لگی یا تو خود کو غیر جانبدار کہلوانے کا شوق چرایا ہوگا یا پھر نریندر مودی ان کا لیڈر ہو گا ۔۔۔۔۔ ہم تو صاف نام لیتے ہیں آپ بھی صاف بولو بلکہ ایجنڈا پیش کرو آپ جیسے لوگ ہی تو ایسی حکومتوں کا سرمایہ ہوتے ہیں !
تحریر : عالیہ جمشید خاکوانی