تحریر : میر افسر امان
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتاکہ نوازشریف صاحب کی حکومت مستحکم ہے اسے پانچ سال حکومت کرنے کا حق عوام نے دیا ہے۔ قوم نے نواز شریف پر ا عتماد کر کے دو تہائی اکژیت سے کامیاب کیا ہے نواز شیرف تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے کا ریکارڈ قائم کیا ۔نواز شریف نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیوں کوحکومت بنانے کی آزادی بھی دی اور انہوں نے اپنے اپنے صوبوں میں حکومتیں بھی بنائیںجو خوش اصلوبی سے چلا بھی رہیں ہیں۔ بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعت اور خیبر بختونخواہ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی اتحادی حکومتیںقائم ہیں۔ وفاق نے عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کر کے اچھی روایت قائم کیں ہیں جس کو پاکستان کے عوام نے عمومی طور پر سراہا۔
مر کز میں بیٹھ کرایسا نہیں کیاجیسے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی مخلوط حکومتوں کے ساتھ بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد میں کیا تھا۔ مولانا فضل الرحٰمان صاحب نے انتہائی کو شش کی کہ نواز شریف کسی بھی طرح ان سے مل جائیں اور خیبر پختونخواہ میں مخلوط حکومت بنائیں اس لیے کہ اکثریتی پارٹی تحریک انصاف کے عمران خان صاحب سے مولانا صاحب کی خیبر پختون خواہ میں نہیں بنتی ۔ مولانا ان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتے ہیں اورعمران خان کہتے ہیں مولانا کے ہوتے ہوئے کسی کو بھی یہودیوں کا ایجنٹ بننے کی کوئی ضرورت نہیںہے خیر یہ تو پاکستان کی سیاست میں سیاست دان ایک دوسرے پر الزام در الزام لگاتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے نواز شریف حکومت کو بہت پریشان کئے رکھا۔
قریب اسی لاکھ ووٹ لیکر عمران خان نے پہلی باربڑی کامیابی سے پاکستان کی سیاست میں نمودار ہوئے مگر شاید انہوں نے سیاست کو بھی کرکٹ سمجھ لیا تھا اور غلطیوں پر غلطیا ںکرتے گئے جس سے تحریک انصاف کو کافی دھچکا لگا جس کا اب وہ اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف تحریک چلا کر بہت کچھ سیکھا ہے۔خیر بات جوڈیشنل کیمشن پر آ کر ختم ہوئی تھی جس نے اپنا فیصلہ سنا کر اس اختلاف کو ختم کیا عمران خان صاحب نے کچھ تحفظات کے ساتھ ایگریمنٹ کی شک کے تحت جوڈیشنل کمیشن کا فیصلہ مان لیا۔نواز شریف نے ایک بار پھر قومی مفاد میں فیصلہ کیا اور تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپس آنے کا موقعہ دیا۔یعنی مولانا اور ایم کیو ایم کی شدید مخالفت اور قانونی موشگافیوں کے باوجود تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں پھر سے فعال کردار ادا کرنے کاراستہ دیا۔
اب تحریک انصاف کو بھی صحیح پارلیمنٹری رول ادا کرنا چاہیے ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے پنجاب کے وزیر داخلہ اور کراچی میں ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی کے ممبر کو دہشت گردوں نے بڑی بے دردی سے شہید کر دیا۔ ملک میں ضرب عضب کامیابی سے چل رہی ہے۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کامیابی سے جاری ہے۔ اس سے پورے ملک اور خصوصی طور پر کراچی کے حا لات بہترہوئے ہیں اس لئے اب عمران خان کومخالفت برائے مخالفت کی پالیسی سے ہٹ کر قوم کے مسائل پر صحیح طور پر پارلیمنٹ میں اپوزیش جو کردار ہوتا ہے وہ ادا کریں اور پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی اور مقررہ وقت پر قومی انتخابات کی تیاری شروع کر دیں اور وقت سے پہلے الیکشن کی گردان اب بند کریں تا کہ سیاست کی گاڑی پٹڑی پر صحیح چلتی رہے۔ قارئین! یہ تو نواز حکومت،عمران خان اور مولانا فضل الرحٰمان کے جاری سیاسی اختلافات کی باتیں تھی جو اللہ کا شکر ہے کہ اب ختم ہو گئیں۔
اب نواز حکومت کے لیے ایک نئی پریشانی کھڑی ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ کی صوبائی اسمبلی سے استعفے دے دیے ہیں۔ذرائع تو کہتے ہیں کہ اہم کیو ایم کی اندرونی خلفشار کی وجہ ہے لیکن زمینی حقاحق تو یہی ہیں کہ ایم کیوایم نے کراچی کے ٹارگٹڈ آپریشن، جو بقول اُن کے یک طرفہ ہے اور ایم کیو ایم کے خلاف ہے کی وجہ سے استعفے دیے ہیں۔ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں ٹارگٹڈ آپپریشن صرف ہمارے خلاف ہو رہا ہے۔ گو کہ یہ بات پوری کی پوری صحیح نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی مجرم ، بھتہ خور، اغوا اور ٹارگٹڈ کلر کو پکڑا جاتا ہے اور اگر وہ کسی سیاسی پارٹی کی چھتری کے نیچے رہ کر جرم کر رہا ہے تو پر اس پر واویلا نہیں کرنا چاہیے اور سیاست کو جرم سے پاک کرنا چاہیے۔
اگر رینجرز بھی کسی کو گرفتار کرتی ہے تو اسے قانون کے مطابق ہی گرفتار کرنا چاہیے اور رینجرز کو اس کے لواحقین کو اس کی گرفتاری کے بعد بتانا چاہیے تاکہ قانون کے تقاضے پورے ہوں اور کسی شہری کو بلا وجہ گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔اب ایم کیو ایم نے ١٩ مطالبات حکومت کو پیش کئے ہیں ان میںسے جو بھی جائز مطالبات ہیں وہ ضرور منظور کرنے چاہیں مگر مجرموں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن جب تک جرم ختم نہیں ہوتا جاری رہنا چاہیے اس آپریشن سے کراچی میں ٢٥ سال بعد امن قائم ہوا ہے کراچی کے سب لوگ اس سے خوش ہیں اور رینجرز کی تحریف بھی کرتے ہیں۔نواز حکومت ا ن شا اللہ اس بحران پر بھی قابو پا لے گی۔ مگر ذرائع جس بات پر نواز شریف کو ہوشیار باش ہونے کا کہتے ہیں وہ فوج کے خلاف ان کے وزیروں کی باتیں ہیں۔ ہم نواز شریف کو یاد کراتے ہیں کہ ان کی پہلی حکومت میں انہوں نے غلطی کی تھی کہ اندر کی باتیں پبلک کے سامنے لے آئے تھے پھر فوج کے سربراہ نے بیچ میں پڑھ کر فیصلہ کیا تھاجس سے ان کی حکومت ختم ہوئی تھی۔
ان ہی کے دور میں نون لیگ کے کارکنوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا۔پھر صرف نیشنل سیکورٹی کونسل کے معاملے پر ایک سپہ سالار کو فارغ کیا تھا جس کو فوجی حلقوں اچھا نہیں سمجھا گیا تھا۔ پرویزمشرف فوج کا سپہ سالار ملک سے باہر تھا کہ اسے ہٹا کر ضیا الدین بٹ صاحب کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔جس کی وجہ تلخی بڑھی مارشل لا لگا اور آپ ملک سے باہر رہنے پر مجبور ہوئے ۔مشرف دور میں نیشنل سیکورٹی کونسل بنی اس وقت سے لیکر زرداری صاحب کے دور تک اس کی میٹنگ ہوتی رہیں مگر آپ کی حکومت کے دو سال ہو گئے اس کی کوئی بھی میٹنگ نہیں ہوئی۔جیو ٹی پر آئی ایس آئی کی سربراہ کے خلاف سارا دن پروپگنڈا ہوتا رہا مگر آپ نے اپنے آئی ایس آئی کے سربراہ جو آپ کو رپورٹ کرتا ہے کا صحیح طریقے سے دفاع نہ کر سکے۔
عمران خان کے دھرنے کے حوالے سے آپ کے لوگ کھل کر فوج کے متعلق باتیں کرتے رہے ہیں۔ بلا آخر آپ کے سینیٹر نے بی بی سی کو انٹرویو دے کر معاملات کو خراب تر کر دیا جس کی آپ نے تردید بھی جاری کی اور سینیٹر سے استعفا لینا پڑا ۔فوج ،سیاست دان ،حکومتیں اور عوام ہم سب ایک ہیں ایک دوسرے کی غلطیوں کے فورم بنے ہوئے ہیں کھلے عام اختلاف کو بیان کر کے وہی ہوتا ہے
جو آپ کی پہلی دور حکومتوں میں ہوتا رہا ہے اس لیے آپ کی اور قوم کی خیر خواہی کی بنیا د پر ذرائع کہتے ہیں کہ نواز شریف ہوشیار باش۔ یاد رہے کہ ہماری جمہوریت اس مقام تک نہیں پہنچی جہاں ہر ادارہ اپنا اپنا کام کرتا ہے۔ ایک دن آئے گا جب پاکستان کے ادارے اپنے اپنے حلقوں میں ہی کام کیا کریں اورایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے ۔اللہ ہمارے ملک میں معاملات صحیح سمت چلنے اور پاکستان کی حفاظت کرے آمین۔
تحریر : میر افسر امان