تحریر: سید انور محمود
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی تقریر کا دورانیہ صرف سترہ منٹ تھا، سترہ منٹ کی اس تقریر کی لاگت تقریبناً پندرہ کروڑ پاکستانی روپے تھی جو پاکستان کے غریب عوام بھریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف کی تقریر سے پہلے ہی میڈیا میں اُن کی تقریر کے چند نکات منظر عام پر آگئے تھے، جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی جنکو پاکستانی وزیراعظم سے پہلے تقریر کرنا تھی وہ پندرہ دن پہلے ہی منسوخ کردی گئی تھی۔ اس سترہ منٹ کی تقریر میں وزیراعظم نوازشریف نے غربت سے لیکر دہشت گردی تک، ہمسائیہ ممالک سے سے لیکر عالمی ممالک تک پر بات کی۔
وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر کے فوری حل سمیت خطے میں دائمی امن و سلامتی کے قیام کے لئے اقوام عالم سمیت بھارت کو چارنکاتی امن ایجنڈاپیش کرتے ہوئے کہاکہ سیاچن سے غیرمشروط فوجی انخلاء کیاجائے،کشمیرکو غیرفوجی زون بنایاجائے، دونوں ملک کنٹرول لائن پرسیزفائرمعاہدے کی پابندی کریں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کودھمکیاں دینے اور طاقت کے استعمال سے گریزکریں۔ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ کشمیر کے حل طلب مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی استصواب رائے کے مطابق حل ہوناچاہئے جس کے لئے اقوام متحدہ کو اپنا بھر پورکرداراداکرناچاہئے۔
ستر سال سے پاکستان کشمیر کی بین بجا رہا ہے لیکن اقوام متحدہ اور بھارت وہ بھینس ہیں جن کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔اگر وزیراعظم پاکستان نواز شریف اپنے ان نکات کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے سے پہلے پاکستان میں کسی پانچویں کلاس کے طالب علم سے یہ پوچھتے کہ بھارت اُنکے چار نکات کا کیا جواب دیگا، تو وہ پانچویں کلاس کا بچہ اُنکو وہی جواب دیتا جواگلے دن بھارتی وزیرخارجہ سُشماسوراج نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا نام لیکر اُن کے چار نکاتی امن منصوبے کو مستردکردیا۔
سُشما سوراج کا کہنا تھا کہ کسی چارنکات کی ضرورت نہیں، نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان دہشت گردی ختم کرئے تو بات چیت شروع ہوسکتی ہے۔ پاکستان سے مذاکرات صرف بھارت کی شرائط اورایجنڈے کے مطابق ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی سُشما سوراج نے وہی پرانے الزام دہرائے جو ہر پاکستانی کو زبانی یاد ہیں۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھوان نے کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لئے کسی چار یا چھ نکاتی فارمولے کی ضرورت نہیں، بھارتی وزیر خارجہ کا پیغام بہت واضح ہے پاکستان صرف دہشتگردی کا خاتمہ کرے اور ہمارے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرلے۔
گذشتہ سترسالوں میں جب سے اقوام متحدہ معرض وجود میں آئی ہے دنیا بھر میں امن وآتشی ناپید ہوگئی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران چھ کروڑ انسانوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ اقوام متحدہ کی قیام کے بعد امن کے سالوں میں 2013ء تک جنگی تنازعات میں مرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہر سال ستمبر میں پوری دنیا کے حکمران اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جہاں دوتہائی آبادی غربت کی چکی میں پس رہی ہے ، اُن کےحکمرانوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ اُن کے ملکوں کو درپیش عسکری یا سفارتی تنازعات کے حل کی کنجی اسی ادارے کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اقوام متحدہ کے امن قائم کرنے اور مختلف ملکوں کے درمیان تنازعات میں ثالثی کروانے کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو صرف ناکامی ہی نظرآئے گی۔ اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں بدامنی، خانہ جنگی، پراکسی جنگیں، نقل مکانی، دہشت گردی، معاشی واقتصادی بربریت، خواتین اور بچوں کے حقوق کی پامالی، جہالت اور افلاس کا جو کہرام مچا ہوا ہے وہ سب انہی سربراہان مملکت کی حاکمیت اور ہوس کا نتیجہ ہے جو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں موجود ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے 70ویں اجلاس میں شرکت کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہان مملکت و حکومت کے پیش نظر مختلف اور متنوع مقاصد تھے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نہ صرف اپنے ملک کے لیے سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کےلیے اپنے وقت کا استمال کیا بلکہ اُنہوں نے اس موقعہ کو امریکا کی کارپوریٹ ورلڈ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔پاکستان کی سیاسی قیادت کا سب سے بڑا مسئلہ طاقتور ہمسائے بھارت کا نفسیاتی خوف تھا۔ اقوام متحدہ کے اس اجلاس میں بھی پاکستانی قیادت کے ذہن پر صرف یہی مسئلہ سوار دکھائی دے رہا تھا۔ نیویارک میں پاکستانی وزیراعظم، وزارت خارجہ کے سیکرٹری اعزاز چودھری اور یو این میں مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی مختلف مواقع پر گفتگو اور پریس بریفنگز بھی اسی بات کی تائید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تین روز تک بھارتی سرحد کے اندر دیوار کی تعمیر کا راگ الاپنے کے بعد پاکستان نے 180 ڈگری کا یو ٹرن لیتے ہوئے بعد میں یہ کہا کہ بھارت کے ساتھ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر فائرنگ کے واقعات ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں اپنا ہوم ورک درست طور پر نہیں کیا تھا یا شاید کیا ہی نہیں تھا۔ اسی باعث وہ بھارت پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے ثبوتوں کے بجائے صرف اپنی اطلاعات کے حوالے تک ہی محدود دکھائی دے رہے تھے۔
ان ذرائع نے اس اقدام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو فائرنگ کا معاملہ آغاز ہی سے سرفہرست رکھنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ان معاملات کے ساتھ ایک اہم ترین معاملہ یہ بھی تھا کہ پاکستان اس اجلاس میں اپنے سماج کے اندر حقوق انسانی، خواتین کی فلاح اور تعلیم کے فروغ کے لیے ملینئیم گولز کے حوالے سے بات کرتا لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ پاکستانی سیکرٹری خارجہ سے جب ایک پریس بریفنگ میں یہ سوال پوچھا گیا کہ یو این کے اس اجلاس کا اہم ترین موضوع سکیورٹی نہیں بلکہ ملینئیم گولز یعنی ترقی کے اہداف کا حصول ہے جبکہ پاکستانی وفد صرف بھارت کے ساتھ مسائل پر گفتگو کر رہا ہے تو انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ وہ دیگر ایشوز پر بھی بات کر رہے ہیں۔
صحافتی ذرائع کے مطابق امریکا کے حکومتی ایوانوں اور میڈیا میں جو پذیرائی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو حاصل تھی، اس کے باعث پاکستانی وفد کو بالکل بھی توجہ نہیں مل رہی تھی جبکہ پاکستان کے سرکاری خرچ پر امریکا جانے والے پاکستانی صحافی اپنی مضحکہ خیز رپورٹوں میں پاکستانی وفد کی پذیرائی کے جھوٹے اور من گھڑت قصے لکھ کر حق خدمت ادا کررہے تھے۔ جو صحافی پاکستانی وفد میں شامل تھےاُنکی رپورٹنگ کا یہ عالم تھا کہ وہ غلط اور غیر حقیقی خبریں صرف اس لیے اپنے اداروں کو ارسال کر رہے تھے کہ حکومتی عنایات کا حق ادا کیا جاسکے۔ ایک پاکستانی صحافی اور اس کے ادارے نے یہ خبر تک شائع کردی ہے کہ بھارتی وزیراعظم کو امریکا میں میڈیا کوریج نہیں مل رہی جبکہ پاکستانی وزیراعظم میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات محض 15 سے 20 منٹ تک جاری رہی جس میں کوئی پانچ منٹ کی ون آن ون ملاقات بھی شامل ہے۔ اس ملاقات کو امریکی میڈیا میں کوئی کوریج حاصل نہیں ہوسکی۔
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون سے ملاقات میں بھارتی سرحد کے اندر دیوار کی تعمیر کا معاملہ اٹھایا ہی نہیں جبکہ یہ کہا جارہا تھا کہ اس معاملے کو اولیت حاصل ہوگی۔ تاہم ذرائع کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بان کی مون کے ساتھ ملاقات میں مسئلہ جموں و کشمیر پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اس ریاست میں رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس ملاقات کے بعد پاکستانی مشن کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں زیادہ تر یہی بتایا گیا کہ وزیر اعظم نے یہ کہا اور وہ کہا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کیا کہا۔ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکا میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کا یہ کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پوری ملاقات میں صرف نواز شریف بولتے رہے اور بان کی مون سنتے رہے۔
نیویارک سےواپسی سےقبل وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ اُن کا دورہ امریکہ بہت کامیاب رہا جس پر نیویارک میں موجود پاکستانی صحافی سمیع ابراہیم نے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ سے متعلق کچھ اہم انکشافات کیے۔ صحافی سمیع ابراہیم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف امریکہ میں کمیونٹی کے نام پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں سے ملاقات کرتے رہے جبکہ وزیر اعظم نواز شریف نے اوبامہ اور بانکی مون کی جانب سے دئے گئے عشائیہ میں بھی محض اس لیے شرکت کرنے سے گریز کیا کہ وہاں اُن کو دوسری قطار میں نشست دی گئی جبکہ بھارتی وزیر اعظم پہلی قطار میں موجود تھے۔ سمیع ابراہیم نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے ہمراہ 4 باورچی بھی لائے تھے جو وزیر اعظم نواز شریف سمیت ان کے ساتھ موجود 70 سے 80 افراد کا کھانا بناتے تھے۔
نواز شریف اگر واقعی مسلہ کشمیر اورپاک بھارت تنازات کا حل چاہتے ہیں تو پہلے اپنی خارجہ پالیسی کو درست کریں، اپنے معاشی نظام کو درست کریں پھر بھارت کے ساتھ بیٹھ کر برابری کی بنیاد پر بات کریں۔ 1990ءکی دہائی میں جب بھارت کی معاشی حیثیت آج کے مقابلے میں کہیں کمتر تھی، اس وقت بھی پاکستان اقوام متحدہ میں بھارت کے خلاف کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا تو آج جب بھارت مغربی دنیا کی ضرورت بن چکا ہے، پاکستانی قیادت اس کے خلاف کوئی کامیابی کیسے حاصل کرپائے گی؟ آخر میں نواز شریف صاحب سے گذارش ہے کہ اس غربت زدہ قوم پر رحم کھایں اور اقوام متحدہ کی اس سالانہ پکنک پر جانا بند کریں جہاں آپکی 17 منٹ کی بے حاصل تقریر پر اس غریب قوم کو پندرہ کروڑ روپے ادا کرنے پڑے۔
تحریر: سید انور محمود