اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو یہ کہ کیا نئے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت اور ان کی پارٹی قیادت اب بھی خود کو حزبِ اقتدار سمجھتے ہیں یا پھر ان کا ایک پاؤں عملاً اقتدار میں اور دوسرا ذہنی اعتبار سے اپوزیشن میں ہے؟ نواز شریف صاحب بھلے سیاسی طور پر لوگوں کے دلوں میں بستے ہوں مگر مروجہ قانون کے اعتبار سے وہ اس وقت عملاً نہ تو کسی سیاسی جماعت کے صدر ہیںاور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ پانے کے اہلِ۔یعنی وہ ایک ایسے عام شہری ہیں جنھیں مقدمات اور چھان بین کا سامنا ہے؟ چنانچہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد تا لاہور لانگ مارچ ان کا بنیادی سیاسی حق سہی مگر کیا سرکاری خزانے کی آئینی امین حکومت نے یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ اس کے وسائل کسی عام شہری کے نجی حقِ احتجاج کو کسی بھی سطح پر کسی بھی مد کے پردے میں ماورائے قانون اسپانسر تو نہیں کر رہے؟ اگر نیا معیار یہ ہے کہ بطور شہری آپ کسی بھی ادارے سے متعلق شکایت پر احتجاجاً سڑک پر آ سکتے ہیں اور ریاست اس شکایت کی مد میں آپ کی ہر طرح سے مادی، انتظامی، سیاسی اور اخلاقی مدد کرے گی تو پھر اس سہولت کا حقدار صرف ایک ہی عام شہری کیوں؟ بیس کروڑ دیگر کیوں نہیں؟
آمریت و فسطائیت کے خلاف سڑک پر جدوجہد نہ صرف سمجھ میں آتی ہے بلکہ جمہوری اعتبار سے اسے جائز بھی سمجھا جاتا ہے۔لیکن ایک ایسی عدالت کہ جو اسی آئین کے تحت کام کر رہی ہے کہ جس کی سربلندی آپ کو بھی عزیز ہے، ایک ایسی عدالت جس کے اب تک کے تمام فیصلوں کو آپ نے اس طرح کبھی چیلنج نہیں کیا کہ جس طرح اپنی ذات سے متعلق فیصلے کو للکار رہے ہیں۔بلاشبہہ چیلنج کی اس نوعیت کا سیاسی جواز تو ہو سکتا ہے مگر آئینی و قانونی جواز کیا ہے؟ تو کیا اس عدالت نے آج تک بس ایک فیصلہ ہی غیر منصفانہ کیا؟ اگر اس نوعیت کے ایک سے زائد فیصلے آپ کے علم میں ہیں تو آپ نے انھیں سڑک پر چیلنج کرنے کے اصول کی سربلندی کے لیے کبھی اتنی شدومد و پھرتی کیوں نہ دکھائی؟
ایک راستہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ جو فیصلہ آئین و قانون کو جواز بنا کر سنایا گیا ہے اسے اسی فورم پر چیلنج کیا جائے۔کیا قانون یہ راستہ فراہم نہیں کرتا؟ دوسرا راستہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ بھلے کسی خاص فیصلے سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کریں لیکن اگر آپ فیصلہ ساز ادارے کا وجود جائز تسلیم کرتے ہیں تو اس کے نامقبول فیصلے کو بھی جائز تسلیم کرتے ہوئے اس سے پہنچنے والے ممکنہ سیاسی نقصانات کے توڑ کے لیے چیخ و پکار میں پورا وقت کھپانے کے بجائے آیندہ کی حکمتِ عملی کچھ ایسے وضع کریں کہ آپ کا بھی کم ازکم سیاسی نقصان ہو، آپ کی جماعت بھی کسی اجتماعی خسارے کا شکار نہ ہو اور جمہوریت کا پہیہ بھی چلتا رہے۔
آپ کے ساتھ دراصل ہوا کیا؟ اس کے لیے میں ایک بار پھر جرمن پادری مارٹن نیمولر کی وہی نظمیہ مثال دینے پر مجبور ہوں جو ہزاروں دفعہ دی جا چکی ہے۔ ’’ جب وہ پہلے پہل سوشلسٹوں کو لینے آئے میں چپ رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کے پیچھے آئے مگر میں چپ رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے مگر میں چپ رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔پھر وہ مجھے لینے آ گئے۔تب تک کوئی نہ بچا تھا جو میرے لیے بولتا‘‘ …
ابھی تین برس پہلے اسی پارلیمنٹ نے تو آپ کو سڑک کے ایجی ٹیٹروں سے بچایا تھا کیونکہ مسئلہ قانونی نہیں سیاسی تھا۔اور آج آپ کی حلیف جماعتوں میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ ٹرک پر سوار نہیں۔حلیف چھوڑ آپ کی پارٹی کی بالائی قیادت بھی یہ نہیں طے کر پا رہی ہے کہ ٹرک پر چڑھیں یا نیچے ہی سے ہاتھ ہلاتے رہیں۔ایک برسرِقتدار پارٹی بھلا کیسے اپوزیشن کی اداکاری کر سکتی ہے؟ اس انوکھے مسئلے کا جواب تو یوریپیڈیس، کالی داس اور شیکسپئیر جیسے تھیٹرکے خداؤں کے ہاں بھی دستیاب نہیں اور آپ تو لوئی شانزدہم بھی نہیں کہ کہہ سکیں ’’ میں ہی تو ریاست ( فرانس ) ہوں‘‘…
حالانکہ آپ جوشِ خطابت میں گزشتہ ڈیڑھ برس میں بار بار کہہ چکے تھے کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے منظور ہو گا۔پھر بھی فرض کریں آپ سیاسی شہید بن بھی گئے تو بھی کیا ہوگا؟ آج نہیں تو کل فیصلے کی تبدیلی کے لیے کسی نہ کسی کو کسی عدالت سے رجوع تو کرنا ہو گا؟ اور تب بھی فیصلہ من پسند نہ آیا تب کیا کریں گے؟ ایسا نہیں کہ عدالتی فیصلے تبدیل نہیں ہوتے۔تاریخ میں درجنوں مثالیں ہیں نظرِ ثانی کی، ری ٹرائیل کی، ریکارڈ کی درستگی کی۔مگر اس کے لیے پہلے عدالت کو ماننا ہوتا ہے، پھر سرِتسلیم خم کرنا ہوتا ہے اور پھر استدعا کرنا پڑتی ہے۔یہ نہیں کہا جاتا کہ میں عدالت کا احترام کرتا ہوں مگر فیصلہ نہیں مانتا۔
یہ بات کوئی ایسا غیر جانبدار ماہر کہے جس کا اس مقدمے سے کوئی براہِ راست لینا دینا نہ ہو اور وہ صرف قانونی پہلوؤں کی بنیاد پر فیصلے کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے فیصلے کی صحت کے بارے میں تکنیکی دلائل کی مدد سے اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ نقص زدہ ہے تو اس کی بات میں یقیناً وزن ہو گا۔لیکن ملزم کی رائے کی اس بابت کوئی اہمیت نہیں۔ آپ نے زندگی میں ایسے کتنے ملزم دیکھے جنہوں نے ببانگِ دہل کہا ہو کہ ہاں میں نے جرم کیا اور میرے ساتھ انصاف بھی ہوا؟ اگر ملزم کی پسند ناپسند کو کسوٹی بنا لیا جائے تو پھر اس دنیا میں ایک بھی سویلین عدالت باقی نہ بچے۔
ایک سوال یہ بھی تواتر سے اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلے ستر برس میں اٹھارہ میں سے ایک وزیرِ اعظم بھی پانچ برس کی مدت پوری نہیں کر پایا۔کیا کرسی میں کوئی فنی خرابی ہے یا نظام میں کوئی وائرس ہے۔کبھی کوئی آمر منتخب وزیرِ اعظم کو اٹھا کے پھینک دیتا ہے تو کبھی کوئی جج۔ بظاہر یہ دلیل خاصی عوامی، وزنی اور پرکشش ہے۔مگر کسی وزیرِ اعظم یا حکومت کا آئینی مدت پوری نہ کرنا کیا واقعی کوئی ایسا ترازو ہے جس میں جمہوریت کا ماضی ، حال یا مستقبل تولا جا سکے؟ اس صورتحال کے ذمے دار جنرلوں اور ججوں کے علاوہ سیاسی موقع پرستی اور ایک ادارے کو اپنے مفاد کے لیے دوسرے ادارے کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش، بندربانٹ اور جوڑ توڑ بھی تو ہو سکتے ہیں؟
اگر کسی وزیرِ اعظم یا حکومت کا آئینی مدتِ پورا کرنا ہی تابناک جمہوری مستقبل کی ضمانت ہے پھر تو اس دنیا کا سب سے بدنصیب جمہوری ملک اٹلی ہے جہاں اٹھارہ سو اکسٹھ سے لے کر آج تک شائد ہی کوئی وزیرِ اعظم آئینی مدت پوری کر پایا ہو۔اٹھارہ سو اکسٹھ سے انیس سو بائیس کے ساٹھ برس کے دوران اٹلی میں سینتیس حکومتیں ٹوٹیں اور بنیں۔ انیس سو بائیس سے انیس سو چوالیس تک کے بیس برس مسولینی کے فاشزم نے نگل لیے۔مگر فاشزم کے خاتمے کے بعد کے ستر برس میں بھی اٹھائیس حکومتیں بنیں اور گریں۔کئی وزرائے اعظم کرپشن کے سبب نکالے گئے، کئی کا مافیا گروہوں سے ربط ضبط ثابت ہوا، بہت سے آپس کے جوڑ توڑ کا لقمہ بنے۔مگر اطالوی آج بھی جمہوریت کی کمزوری سے اکتائے نہیں۔اتنے عدم استحکام کے باوجود اٹلی سات ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے کلب میں مسلسل شامل ہے۔
جاپانی سیاست میں سیمورائی جنگجوانہ فوجی اثر و رسوخ دوسری عالمی جنگ کے ساتھ ہی دفن ہوگیا۔قاعدے سے وہاں پچھلے ستر برس میں چودہ وزرائے اعظم ہونے چاہیے تھے۔مگر ان ستر برسوں میں جاپانی اکتیس وزرائے اعظم دیکھ چکے ہیں۔ان میں سے صرف پانچ ایسے ہیں جو پانچ برس کا ہندسہ پار کر سکے۔ایسے خوش قسمتوں میں موجودہ وزیرِ اعظم شنزو ایبے بھی شامل ہیں۔تو کیا یہ کہا جائے کہ جاپان میں جمہوریت کا مستقبل تاریک اور غیر یقینی ہے؟ جمہوری اتھل پتھل اپنی جگہ مگر جاپان کیا دنیا کی دوسری اور اب تیسری بڑی صنعتی طاقت نہیں رہا؟ کیا کسی کے جانے کے بعد وہاں دن نہیں نکلا یا رات نہ ہوئی؟ وجہ بس اتنی سی ہے کہ جہاں آئینی ادارے مضبوط ہوں وہاں اکتیس چھوڑ ایک سو اکتیس حکومتیں بھی بدل جائیں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ سیاستدان چونکہ اپنی سماجی حیثیت میں نرے عام شہری نہیں ہوتے۔لہذا ان کا حوصلہ ، صدمہ سہنے اور اوسان بحال رکھنے کی صلاحیت ، دل و دماغ اور ظرف کی گنجائش بھی ایک عام شہری سے زیادہ ہونی چاہیے۔اگر ان کا طرزِ عمل بھی میری طرح عامیانہ ہی ہوگا تو پھر کدو کو رول ماڈل کہنے میں کیا قباحت ہے؟
جن کے رتبے ہیں سوا ، ان کی سوا مشکل ہے