اہور (ویب ڈیسک) 90کی دہائی میں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے۔آج کا ایف بی آر اس وقت سی بی آر کے نام سے جانا جاتا تھا۔سینٹرل بورڈ آف ریونیو کا دفتراسلام آباد میں فیض آباد کے نزدیک زیرو پوائنٹ پر ہوا کرتا تھا۔ایک مرتبہ سی بی آر کے سربراہ نے نوازشریف کو بطور وزیراعظم نامور کالم نگار حذیفہ رحمان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کسی تقریب میں مدعو کیا۔نوازشریف زیرو پوائنٹ ،اسلام آباد میں سی بی آر کے دفتر پہنچے تو انہوں نے اپنی تقریر کے دوران چیئرمین سی بی آر سے کہا کہ جس ملک کا سی بی آر ہی زیر وپوائنٹ پر ہو ،اس ملک نے کیا ترقی کرنی ہے۔تقریب کے بعد چیئرمین سی بی آر نے نوازشریف سے درخواست کی کہ جس جس ادارے کا ذکر آئین پاکستان میں موجود ہے۔اس کا دفتر شاہراہ دستور پر ہے۔سی بی آر(موجودہ ایف بی آر) کا ذکر بھی آئین پاکستان میں موجود ہے۔مگر ہمارے دفتر کے لئے شاہراہ دستور پر کوئی جگہ نہیں ہے ،براہ کرم چیئرمین سی ڈی اے کو ہدایت دیں کہ سی بی آر کے لئے شاہراہ دستور پر پلاٹ الاٹ کرے۔یوں سی بی آر (موجودہ ایف بی آر) کا دفتر شاہراہ دستور پر منتقل ہوا۔آج بھی شاہراہ دستور پر انہی اداروں کے دفاتر موجود ہیں،جن کا آئین پاکستان میں ذکر ہے اور ان میں سے بیشتر دفاتر ایسے ہیں جن کا افتتاح نوازشریف نے اپنے دست مبارک سے کیا ہے۔شاہراہ دستور پر قائم اہم اداروں کی عمارت میں ایک عمارت سپریم کورٹ آف پاکستان کی بھی ہے۔آج بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کی مرکزی افتتاحی تختی پر نوازشریف کا نام بطور وزیراعظم درج ہے۔ شاہراہ دستور پر قائم عمارتوںکا خیال مجھے وزیراعظم سیکرٹریٹ کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی خبر دیکھ کر آیا۔متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز نے لکھا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔حالانکہ شاہراہ دستور پر جو عمارت قائم ہے ،یہ وزیراعظم سیکرٹریٹ ہے نہ کہ وزیراعظم ہاؤس۔کیونکہ وزیراعظم ہاؤس پاک سیکرٹریٹ کے پیچھے واقع ہے نہ کہ شاہراہ دستور پر۔بہر حال شاہراہ دستور پر قائم ریاستی ادارے ریاست کی علامت تصور کئے جاتے ہیں ۔تعلیم ہر حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے مگر شاہراہ دستور پر قائم وزیراعظم سیکرٹریٹ کی عمارت کو یونیورسٹی بناکر تعلیم اولین ترجیح کبھی نہیں ہوسکتی۔آج نہیں تو کل اس فیصلے کو بھی بدلنا پڑے گا مگر پھر اسی عمارت کی حالت کو درست کرنے اور تزئین و آرائش کے لئے کروڑوں روپے خرچ ہونگے۔عمران خان بھی اپنے مستقبل سے بے نیاز ہو کر فیصلے کئے جارہے ہیں مگر ان فیصلوں کی اصل قیمت ریاست اور ریاستی اداروں کو ادا کرنا پڑے گی۔کل کا دن نوازشریف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم ہے۔مذکورہ بالا چند واقعات کا تذکرہ بھی اس لئے کیا ہے ،تاکہ حقائق بیان کرنے میں آسانی ہو۔سوموار کے روز احتساب عدالت کوئی بھی فیصلہ جاری کردے مگر نوازشریف کو پاکستانی سیاست سے مائنس کرنا ممکن نہیں رہا۔ جن عمارتوں سے آج اس نوازشریف کے خلاف فیصلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کے در و دیوار پر آج بھی اس کے نام کی تختیاں آویزاں ہیں۔آپ نوازشریف کو نکال کر بھی نہیں نکال سکے۔کسی نے مشورہ دیا کہ پیپلزپارٹی سے جان چھڑانی ہےتو ذوالفقار علی بھٹو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلا دو۔ضیاءالحق سے کئی دوستوں اور سربراہان مملکت نے بھٹو کی معافی کی بات کی تو وہ یہی کہتے تھے کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں۔یوں یہ سوچ کر بھٹو کو مار دیا گیا کہ پی پی پی ختم ہوجائے گی۔مگر آج بھٹو کا نواسہ بھٹو کی شکل میں زندہ ہے۔پیپلزپارٹی 50سال کی ہوچکی ہے۔ایک سابق وزیراعظم کی موت نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا۔آج بھی حالات ایسے ہی ہیں۔نواز شریف کے لئے کلثوم نواز کی موت سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہوسکتا۔احتساب عدالت کا فیصلہ نوازشریف کے حق میں آئے یا خلا ف آئے مگر احتساب عدالت کا فیصلہ نوازشریف کی سیاست کو مضبوط کرے گا۔اچھا ہوا زرداری صاحب کی ضمانت میں توسیع کردی گئی۔وگرنہ شایدزرداری صاحب کی گرفتاری کی قیمت ملکی معیشت کو چکانا پڑتی۔جب بھی ملک میں سیاسی عدم توازن ہوتا ہے تو سرمایہ کار بھاگتے ہیں اور اسٹاک ایکسچینج سسکیاں لیتی ہے، ڈالر اونچی اڑان لیتا ہے۔میری اطلاع کے مطابق زرداری صاحب کو گرفتار کرنے کے حوالے سے اب تک شش و پنج کی کیفیت ہے ۔اگر اس حوالے سے فیصلوں پر نظر ثانی شروع کردی گئی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔نوازشریف کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونا بلکہ اصل فائدہ پاکستان کا ہوگا۔اپنے رویوں پرتمام فریق نظر ثانی کریں۔نوازشریف سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اور سب سے زیادہ نظر ثانی انہیں کرنی چاہئے۔قارئین سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کے حوالے سے میرے نظریات سے بخوبی آگاہ ہیں۔مگر سویلین بالادستی کا خواب راتوں رات شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اٹھارہویں ترمیم سمیت جن معاملات پر فریقین کو تحفظات ہیں،وہ بیٹھ کر دور ہونے چاہئیں۔نیا چارٹر آف ڈیموکریسی تحریر ہونا چاہئےوگرنہ ملک کا وہ نقصان ہوگا کہ کوئی بھی فریق پھر اسے ریورس نہیں کرسکے گا۔اگر ہم نے اب بھی پاکستان کے بارے میں نہ سوچا تو بس پھر بہت دیر ہوجائے گی۔نوازشریف کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے،انہوں نے اس جدوجہد میں اپنی بیوی کو کھویا ہے،جوان بیٹی کو جیل کی سختیاں برداشت کرتے دیکھا ہے۔مگر سب کچھ بھول کر ،تلخ یادوں کو پس پشت ڈال کر نئی سوچ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔کیونکہ لیڈر ہی غلطیاں نظر انداز کرکے معاف کرتا ہے۔نیلسن منڈیلا نے تو تین دہائیوں کی جیل اور ظلم و ستم کو معاف کرکے سب کو گلے سے لگایا تھا۔آج نوازشریف جیسے سیاستدان سے بھی تاریخ یہی تقاضا کررہی ہےجبکہ دوسروں حلقوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ آخرمعاملے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکلنا ہےنوازشریف کا مستقبل کل جو بھی ہو مگر یہ ضرور سوچئے گا کہ سیاستدانوں کے مستقبل سے ہی عوام کا مستقبل جڑا ہوتا ہے۔لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں ۔۔ اس شہر میں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے۔