لاہور (ویب ڈیسک) چند مہینوں سے مسلم لیگ نون کے سپن ڈاکٹر ز نواز شریف کی بیماری کا عوامی بیانیہ گھڑنے میں مصروف تھے اور ان کاپورا زور اس پر تھا کہ انہیں علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ نواز شریف کی صحت کے حوالے سے نامور کالم نگار سعد رسول اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔تشویش کا اظہار کیا گیا‘جب کبھی نواز شریف سے ان کی دولت کے بارے میں پوچھا گیا ‘انہیں نیب یا جے آئی ٹی کی طرف سے بلا یا گیا تو اسی طرح کی آوازیں سننے کو ملیں ۔مگر فروری کے بعد یہ بیانیہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچ گیاجب اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی اپیل مسترد کردی۔اسی تناظر میں نواز شریف کی ضمانت کی اپیل مسترد ہونے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔عدالت عظمیٰ میں اپیل کی سماعت شروع ہونے تک مسلم لیگ نون کی قیادت نے یہ بیانیہ اپنارکھا تھا‘اول:جیل میں نواز شریف کی صحت اس قدر خراب ہے کہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔دوم:ان کا علاج کرائے بغیر ہسپتالوں کے چکر لگوائے گئے۔سوم:صرف لندن کے ڈاکٹر ہی نواز شریف کا مناسب علاج کر سکتے ہیں۔چہارم:مسلم لیگ نون نواز شریف کی صحت کے حوالے سے کسی پاکستانی ڈاکٹر یا ہسپتال پر اعتماد نہیں کر سکتی۔پنجم:جب تک نواز شریف کو ضمانت پر رہا کرکے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں مل جاتی وہ کسی قسم کا علاج کروانے سے انکاری ہیں۔ پچھلے ہفتے دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے نواز شریف کی سزا معطل کرکے چھ ہفتے کے لئے ان کی ضمانت کی استدعا منظور کر لی۔معزز عدالت کا حکم نامہ قانونی اور سیاسی حلقوں میں ملے جلے جذبات کے ساتھ قبول کیا گیا۔ایک طرف مسلم لیگ نون اپنے لیڈر کی رہائی کا جشن منا رہی ہے تو دوسری طرف محض چھ ہفتے کی ضمانت اور بیرون ملک جانے پر پابندی نے ان کی خوشی کے جذبات کو کافور کر دیا ہے‘جبکہ دوسرے حلقے کو کسی ڈیل کی بو آرہی ہے اور وہ نواز شریف کی ضمانت کو ایک بڑے این آر او کی طرف پہلا قدم قرار دے رہے ہیں‘لہٰذ قانونی تناظر میں یہ استفسار کر نا مناسب ہوگا کہ کیا عدالت عظمیٰ نے سابق وزیر اعظم کو کوئی ناجائز ریلیف دے دیا ہے یا پھرکیا یہ حکم ٹھوس قانونی اصولوں اور نظیروں پر مبنی ہے؟کیا چھ ہفتے کی اس ضمانت کا مطلب ہے کہ انہیں یہ مدت گزرنے کے بعد جیل واپس جانا ہوگایا عدالت عظمی نے اپنے حکم نامے میں نواز شریف کی رہائی کے لئے کافی گنجائش پید ا کر دی ہے ؟کیا بعض تجزیہ کاروںکی رائے کے مطابق ہائی کورٹ ان کی ضمانت میں توسیع کر سکتی ہے؟یا کیا اس طرح کے کسی اقدام کے لئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے؟ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے مناسب ہوگا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کا ایک مرتبہ پھربغور مطالعہ کر لیا جائے۔اس مقصد کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم نامے میں طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے نواز شریف کے وکیل کے دلائل کو نظر انداز کیا گیاہے۔حکم نامے میں یہ لکھا گیا ہے کہ ”درخواست گزار کی ضمانت کی استدعا کی مکمل وضاحت کے بعد نواز شریف کے وکیل نے یہ درخواست(بلکہ رضا مندی ظاہر)کی کہ انہیں آٹھ ہفتے کی ضمانت دے دی جائے تاکہ انہیں اپنی مرضی سے علاج کرانے کاموقع مل سکے اور مطلوبہ مدت پوری ہونے کے بعد درخواست گزار رضاکارانہ طور پر گرفتاری کے لئے سرنڈر کرے گاجس کے لئے اس کے وکیل نے خود اس کی طرف سے ذمہ داری قبول کی ہے۔معزز عدالت نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس اور ہسٹری کی روشنی میں محدود مدت کے لئے ضمانت کی درخواست کو مناسب اور معقول گردانتے ہوئے منظور کیا ہے‘‘۔خاص طور پر عدالتی حکم نامے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ”درخواست گزار اس مدت میں نہ تو بیرون ملک جائے گا اور نہ اسے جانے کی اجازت دی جائے گی‘‘۔یہ الفاظ شامل کرکے کہ ‘ ‘نہ اسے جانے کی اجازت دی جائے گی‘‘حکومت(وزارت داخلہ ) یا ماتحت عدالت(ہائی کورٹ) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں‘ تاکہ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے تمام تر امکانات ہی ختم ہو جائیں۔مزید یہ کہ معزز عدالت کے حکم میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ ”چھ ہفتے گزرنے کے بعد یہ ضمانت خود بخود ختم ہو جائے گی‘‘اور نواز شریف کو ”خود ہی گرفتاری کے لئے سرنڈر کرنا ہوگابصورت دیگر انہیں گرفتار کیا جائے گا‘‘۔ایسا کرنے کی صورت میںچھ ہفتے کی مدت کی تکمیل کے بعد نواز شریف ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دے سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ”اتھارٹیز کے روبرو سرنڈر کر دیا ہے ‘‘‘عدالتی حکم میں اس امر کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ”درخواست گزار گرفتاری کے لئے اس طرح سرنڈر نہیں کرے گا کہ ضمانت کی درخواست کے ساتھ عدالت کے سامنے سرنڈر کرے‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ اس عرصے میں نواز شریف کو ”پاکستان کے اندر اپنی پسند کے ڈاکٹر اور ہسپتال سے علاج کرانے کی مکمل اجازت ہوگی‘‘۔ان حالات میں چھ ہفتے کی مدت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کے پاس جیل جانے سے بچنے کے لئے کوئی قانونی راستہ نظر نہیں آتا۔وہ حلقے جن کا خیال ہے کہ عدالتی حکم میں نواز شریف کے جیل نہ جانے کی گنجائش موجود ہے‘ انہیں عدالت کا حکم نامہ ایک مرتبہ پھر غور سے پڑھ لینا چاہئے۔کیا نواز شریف کو کسی قسم کی رعایت دی گئی ہے ؟تو اس کا جواب ہے ”ہاں‘‘ انہیں ضمانت پر رہائی دی گئی حالانکہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جیل میں قید دیگر بیمار قیدیوں کی رپورٹس سے بری نہیں تھیں۔کیا یہ رعایت مستقل نوعیت کی ہے؟بالکل نہیں۔معزز عدالت کے حکم کی تحریری زبان یا منشا میں اس طرح کے کسی اقدام کا امکان نظر نہیں آتا۔ یہ حکم جاری ہونے کے فوری بعد (الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر)بعض تجزیہ کاروں نے دعویٰ کر دیا کہ چھ ہفتے مدت کی تکمیل کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کو نواز شریف کو رہا کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے‘ تاہم یہ بات سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطابقت نہیں رکھتی۔خاص طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے آخری پیراگراف میں یہ کہا گیا ہے کہ ”اگر ان چھ ہفتوں کی مدت کے دوران (نیب کی سزائوں کے خلاف)اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی دائر کردہ اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہو جاتا ہے تو متعلقہ حکم کے تحت ”درخواست گزار کی گرفتاری کو ریگولیٹ کر دیا جائے گا‘‘ یعنی اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ان چھ ہفتوں کی مدت کے دوران نواز شریف کی درخواست کی سماعت کے بعد انہیں بر ی کر دیتی ہے توانہیں قانون کے مطابق رہا کیا جا سکتا ہے۔اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میرٹ پر ان کی تفصیلی اپیلوں کو سنے اور پھرتمام متعلقہ ثبوتوں کا جائزہ لے کر چھ ہفتے کے اندر ہی نوا ز شریف کے حق میں حتمی فیصلہ بھی دے دے۔ عدالت ِعظمیٰ کے فیصلے میں نوا شریف کو ہمدردانہ رعایت دی گئی ہے وگرنہ وہ تو میڈیکل علاج نہ کروا کر جنگجویانہ رویہ اپنانے کا فیصلہ کر چکے تھے ‘تاہم وہ ملک نہیں چھوڑ سکتے اور پاکستان ہی میں اپنا من پسند علاج کروانے کے بعد انہیں بہر صورت جیل واپس جانا ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ”پاکستان میں اپنی مرضی کا علاج کرانے ‘‘کا مطلب وہی ہے جس کی حکومت سپریم کورٹ کے حکم سے پہلے نواز شریف کو پیش کش کر چکی تھی ۔اس وقت شریف فیملی کو اس طرح کے انتظامات قابل قبول نہیں تھے۔اس سے قبل شریف فیملی بیرون ملک جانے کی اجازت سے کم پر کسی طور رضامند ہی نہیں ہو رہی تھی تاہم ان کے وکیل نے کمرہ عدالت میں بیرون ملک جانے کے مطالبے پر زیادہ زور نہیں دیا اور کہا کہ اگر نواز شریف کو پاکستان ہی میں علاج کروانے کی اجازت مل جائے تو وہ مطمئن ہو جائیں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نواز شریف کے پاکستانی ڈاکٹروں اور ہسپتالوں پر عدم اعتماد کے مسئلے پر بھی ان کے وکیل نے اپنا موقف بدل لیا اور صرف اس امر پر اصرار کیا کہ ان کے موکل کو ”کسی ذہنی دبائو کے بغیر ‘‘پاکستان ہی میں علاج کرانے کے لئے ضمانت پر رہائی دے دی جائے۔نواز شریف کے وکلا نے پہلے والا قانونی اور سیاسی موقف ہی کیوں دہرایا؟یہ سوال جواب طلب ہے ۔معزز عدالت نے نواز شریف کو عارضی ریلیف دیتے ہوئے ان کے وکیل سے یہ اعتراف کروا لیا ہے کہ ان کا پاکستان میں علاج کیا جا سکتا ہے نیز یہ کہ وہ بیرون ملک جانے کے خواہشمند نہیں ہیں اور وہ چھ ہفتے کی مدت کی تکمیل کے بعد اتھارٹیز کے سامنے گرفتاری کے لئے سرنڈر کریں گے۔اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ کا گھڑا ہوایہ سیاسی بیانیہ اپنی موت مر گیا کہ نواز شریف کی زندگی کو خطرہ ہے اور وہ بیرون ملک جانے کی اجازت سے کم پر کسی طور راضی نہیں ہوں گے۔