لاہور (ویب ڈیسک) 26دسمبر کو صاحبِ اسلُوب شاعر منیر نیازی کی بارہویں برسی تھی۔ ٹاؤن شپ میں گندے نالے کے کنارے واقع ان کے چھوٹے سے مکان میں بیگم ناہید منیر نیازی کی دعوت پر ’’ہر سال کی طرح‘‘ اب کے بھی نیازی صاحب کے چند چاہنے والے بھی جمع تھے نامور مضمون نگار ناصر بشیر روزنامہ پاکستان میں اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ان کی باتوں، یادوں اور غزلوں پر سر دُھن رہے تھے۔ منیر نیازی جہاں اس لحاظ سے خوش قسمت شاعر ہیں کہ انہیں ان کی زندگی ہی میں پذیرائی ملی۔ وہاں یوں بھی خوش نصیب ہیں کہ انھیں ناہید جیسی پیار کرنے والی شریکِ حیات ملیں۔ناہید نے زندگی بھر،نیازی صاحب کے ناز نخرے بچوں کی طرح اٹھائے۔اب جبکہ نیازی صاحب اِس دُنیا میں نہیں ہیں، تب بھی وہ اُن کی یادیں تازہ رکھنے کے لئے ہر دم سرگرداں رہتی ہیں۔ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر کسی نہ کسی تقریب کا اہتمام کرتی ہیں۔ نیازی صاحب کے دوستوں کو بلاتی ہیں۔ اُنھیں چائے پلاتی ہیں۔کچھ اُن کی سنتی ہیں،کچھ اپنی سناتی ہیں۔ان کے اندر نیازی صاحب کا عشق یوں سرایت کر گیا ہے کہ دسمبر کے آغاز ہی میں وہ احباب کو یاد دِلانا شروع کر دیتی ہیں کہ26دسمبر کو نیازی صاحب کی برسی ہے۔پہلے پہل برسی کی اس تقریب میں منیر نیازی کے سفر و حضر اور قیام و طعام میں ساتھ رہنے والے شاعر ادیب اور صحافی دوست شریک رہے، لیکن اب ان میں سے بیش تر، اپنی اپنی منزلوں کی جانب یوں گامزن ہوئے ہیں کہ انھیں ٹاؤن شپ کا راستا ہی بھول گیا ہے،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنھیں منیر نیازی صاحب اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے تھے آج وہ ان کی ہم نشینی کے دعویدار بن کر اُن کی شہرت اور عزت سے حصہ لینے کے لئے کاسہ بدست، اُن کے ڈرائنگ روم میں پہنچ جاتے ہیں اور نیازی صاحب کے اصل نیاز مندوں کا مُنہ چڑاتے ہیں۔برسی کی اِس مختصر سی تقریب میں اگر ظفر اقبال، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، روحی کنجاہی، خورشید رضوی، نذیر ناجی، ڈاکٹر طارق عزیز، خاور نعیم ہاشمی، شعیب بن عزیز، نیلما ناہید درانی،خالد جاوید جان،آغا مزمل، بشریٰ رحمن، ناصر بلوچ، فخر زمان، مستنصر حسین تارڑ،آغا امیر حسین، اجمل نیازی، طارق عزیز (نیلام گھر فیم) اور خالد شریف بھی شامل ہو جاتے، تو محفل کا لُطف دوبالا ہو جاتا۔ بہرحال غنیمت ہے کہ یہاں کرامت بخاری، صغرا صدف اور تنویر ظہور دیر تک بیٹھے ہے اور نیازی صاحب کی باتیں کرتے رہے۔بزرگوں کے قدر دان اداکار نور الحسن میرے جانے کے بعد پہنچے۔ بیگم ناہید منیر نیازی اس فکر میں مبتلا تھیں کہ عمران خان نیازی دور میں منیر نیازی کے ساتھ کچھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جا رہا ہے۔انھوں نے بتایا کہ انھیں پچھلے چھ ماہ سے پنجاب حکومت کے محکمۂ اطلاعات و ثقافت اور امورِ نوجواناں کی طرف سے ملنے والا اعزازیہ نہیں ملا۔پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان شاید جانتے ہوں کہ نیازی صاحب نے ساری عمر شاعری کی کتابوں اور مشاعروں کی آمدن سے گھر چلایا۔بے اولاد تھے۔چوہان صاحب! اگر آپ نہیں جانتے تو بتاتا چلوں کہ منیر نیازی صاحب نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اُس وقت شوکت خانم ہسپتال کی چندا مہم میں حصہ لیا۔جب ہر شخص اِسے دیوانے کا خواب سمجھتا تھا۔ ایک تو آپ کو بیگم منیر نیازی کا ماہانہ اعزازیہ بحال کرنا چاہئے، دوسرے یہ کہ 2016ء میں ہم ادیبوں ،شاعروں کے شور مچانے پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور جیل روڈ اور مین بلیوارڈ گلبرگ کے سنگم (فوارہ چوک) پر واقع نو تعمیر شدہ سگنل فری کوری ڈور(فلائی اوور) کا نام ’’منیر نیازی فلائی اوور‘‘ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تمام دفتری کارروائی کے بعد لاہور سے چھپنے والے تمام اُردو اور انگریزی اخبارات میں ’’اطلاعِ عام‘‘ کے عنوان سے بڑے بڑے اشتہار چھپے، جن میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کی طرف سے عوام و خواص سے پوچھا گیا تھا کہ کسی کو اس نام پر اعتراض تو نہیں؟ ظاہر ہے کہ اُردو اور پنجابی زبان کے اتنے بڑے شاعر کے نام پر کسے اعتراض ہو سکتا تھا، جسے تمغۂ حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور کمالِ فن ایوارڈ مل چکا ہو۔اگر نیازیوں کے دورِ حکومت میں بھی منیر نیازی کے نام سے ایک چھوٹا سا فلائی اوور منسوب نہیں ہو سکتا تو شاید پھر کبھی ایسا ممکن نہ ہو۔میری اطلاع کے مطابق پچھلے دورِ حکومت میں ’’منیر نیازی فلائی اوور‘‘ کی سمری اس وقت کے وزیراعلیٰ کے سامنے رکھی گئی تو (غالباً نیازی کا لاحقہ دیکھ کر) انہوں نے مسترد کر دی تھی۔ آخر میں منیر نیازی صاحب کے دو اشعار پڑھ لیجئے۔یوں سمجھئے کہ یہ 27دسمبر کو شہید ہو جانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے ذی محتشم شوہرِ نام دار کو سنا رہی ہیں: میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا ۔۔۔ عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا ۔۔ شہر کو برباد کر کے ر کھ دیا اُس نے منیر ۔۔۔ شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا۔