یہ 1976 کی جولائی تھی جب اس وقت کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اکیڈمی آف لیٹرز کی بنیاد رکھی۔ وہ دنیا کی تاریخ اور تہذیب سے بخوبی آگاہ تھے اور یہ جانتے تھے کہ علم و ادب قوموں کی بلند پروازی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے فرانس کی اکیڈمی آف لیٹرز کی نہج پر پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کا خواب دیکھا لیکن اس خواب کو اپنی خواہشوں کے مطابق شرمندئہ تعبیر نہ کرسکے۔
جلد ہی آمریت کے مہیب سائے پاکستان پر مسلط ہوگئے اور اکیڈمی آف لیٹرز جو علم و ادب کے فروغ اور اہل دانش کے درمیان مکالمے کی خاطر وجود میں آئی تھی، وہ جنرل ضیاء الحق کی خواہشوں کے تابع ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے سات دنوں بعد اسی اکیڈمی کے زیراہتمام ملک بھر کے شاعر، ادیب اور دانشور ایوان صدر میں مدعو کیے گئے۔
انھوں نے ایوان صدر کے جگمگاتے ہوئے ماحول میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے کے ہونٹوں سے یہ تضحیک آمیز جملے سنے کہ ’’جو مصنفین اور اہل قلم اپنے وطن سے اپنے تشخص کو گوارا نہیں کرسکتے وہ اس ملک سے فیضیاب ہونے کا حق نہیں رکھتے اورجو ادیب اپنے ملک کا وفادار نہیں ہوسکتا وہ ادب کا بھی وفادار نہیں ہوسکتا۔ ادب کے فروغ کے لیے حکومت ہر قسم کی حوصلہ افزائی کرنے کو تیارہے۔ اور اس کے ساتھ حکومت ادیبوں پر کسی تخلیقی ادب کا خاکہ چسپاں کرنا نہیں چاہتی۔ ادیب جو کچھ وہ چاہیں‘ جس طرح چاہیں لکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگرہمارے ادیب ذہنی اور نظریاتی طور پر پاکستانی ہیںتو مجھے یقین ہے کہ ان کی تخلیقات کا بنیادی خیال پاکستان ہوگا اور وہ کسی اور چیز کو اپنے ذہن میںجذب کر ہی نہیں سکیں گے۔
جو اہل علم ادیب اور مصنف پاکستان کے ساتھ اپنے تشخص پرشرم محسوس کرتے ہیں ان کے لیے پاکستان کا رزق‘ یہاں کا پانی اور اس ملک کا سایہ‘ اس کی چاندنی حرام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت ایک وحدت ہے۔
ایک ہی آسمان کے نیچے سانس لیتی اور خالق کائنات کی مخلوق ہے۔ لیکن یہ عالمی برادری مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور ہر طبقہ کے تشخص کے کچھ نہ کچھ عوامل ہوتے ہیں۔ کوئی شخص فضامیں معلق ہوکر کائناتی نظام کا تصور نہیں کرسکتا ۔کوئی شخص اپنے وطن سے علیحدہ اور لاتعلق ہوکر انسانی مسائل کی باتیں نہیںکرسکتا۔ ہر خواب کا قریب ترین حقائق سے تعلق ہوتا ہے۔ ایک ادیب اور دانشور کی عظمت اس کی تخلیقات میں ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ادیب سرحدوںسے بے نیاز ہوتا ہے۔ لیکن اہل قلم اور ان کی قلمی کاوشوں کی وفاداریاں ہوتی ہیں اور بلاشبہ یہ وفاداریاں اس کے لیے ہوں گی جن سے وہ منسلک ہوتے ہیں‘‘۔
آزادیٔ فکرو تحریر پر ایمان رکھنے والے ادیبوں پر وطن کی چاندنی، ہوا اور پانی حرام کرنے کا فتویٰ دینے والے آمر مطلق سے ہمارے سیکڑوں دانشوروں اور ادیبوں نے یہ سب کچھ سنا اور خاموش رہے۔
اس بات کو اب 40 برس گذر چکے ہیں۔40 برس بعد 2017 میں ہونے والی ادیبوں کی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے موجودہ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم وطن عزیز سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے، اس سلسلے میں سب سے کلیدی کردار ادیبوں ، شاعروں اور اہل علم و دانش کا ہے، کچھ لوگ ملک میں ناامیدی اور مایوسی پھیلا رہے ہیں، ہم زبان و بیان کا سیلقہ بھولتے جارہے ہیں، ہمارا لب و لہجہ کرخت ہوگیا، دل آزاری کے الفاظ عام ہوگئے، وہ رویے جو میڈیا کے ایک حصے کے ذریعے عام ہورہے ہیں نئی نسل کو متاثر کررہے ہیں، ادیبوں اور دانشوروں کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
اختتامی تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے صدرِ مملکت ممنون حسین نے کہا کہ آج کے ادیب کے کاندھوں پر یہ بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے تخلیقی اظہار میں اپنے عہد کے مسائل، خاص طور پر شدت پسندی جیسے مسئلے کا تجزیہ کرکے بتائے کہ چند بیمار ذہنوں نے جس شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی اجازت نہ دین سے ملتی ہے اور نہ انسانی اور تہذیبی روایت میں اس کی کوئی گنجائش پائی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ذمے داری معاشرے کے ہر طبقے پر عائد ہوتی ہے لیکن اس سلسلے میں جو کردار ادیب اور شاعر ادا کرسکتے ہیں، اس کا کوئی متبادل نہیں کیونکہ ادب ایک ایسا پیرا یہ اظہار ہے جو اپنی خیال آفرینی اور نازک خیالی کے باوصف انسان کے دل و دماغ میں مستقل جگہ بنا کر اس کے فکر و خیال میں دیر پا تبدیلی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اہلِ قلم کا یہ اجتماع خیالات کے باہمی تبادلے اور معاصر علمی و ادبی رجحانات سے آگاہی کا ذریعہ بنے گا جس سے انتہا پسندی، بد امنی اور جنگ و جدل جیسے معاملات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی و جذباتی کیفیات کو سمجھ کر تخلیقی سطح پر افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی ایسی فضا پیدا ہوگی جس سے امنِ عالم کو تقویت ملے گی، منفی رجحانات رکھنے والی قوتیں کمزور ہوں گی اور ہم اپنی دنیا کو مزید خوبصورت اور بنی نوعِ انسان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے موزوں بنا سکیں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ ہمارے نوجوان ادیب اور شاعر اپنی ادبی و تہذیبی روایات اور بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں نئی راہیں نکالنے کے خواہش مند ہیں جن کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی ناگزیر ہے۔
اس کانفرنس کے روح رواں وزیراعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ادب کی ایک روح ہوتی ہے اور اس کالمس مشرق ہو یا مغرب دونوں جگہ ایک ہوتا ہے۔ کانفرنس میں پی ٹی وی کے عطا الحق قاسمی اور اکیڈمی کے چیئرمین قاسم بگھیو نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہمارے بے مثال لکھاری امر جلیل اس کانفرنس میں بہ ذاتِ خود شریک نہ ہوسکے لیکن انھوں نے اپنی تحریر سے اس میں شرکت کی اور یہ کہا کہ ہماری سرزمین صوفیا کی سرزمین ہے۔ یہ ان ہستیوں کی سرزمین ہے جو تب خون کے آنسو بہاتی ہیں جب کسی دوسرے پر آگ برسائی جاتی ہے۔ یہ تب ماتم کرتی ہیں جب کوئی دوسرا تکلیف میں ہوتا ہے۔ یہ غم سے نڈھال ہوجاتی ہیں جب کسی دوسرے کو اذیت پہنچائی جاتی ہے۔
یہ تب روتی ہیں جب تخیل کے پروں کو قطع کیا جاتا ہے۔ عدم برداشت اور سرد مہری کے دور میں یہ ہستیاں با معنی ادب کی بنت کاری کرتی ہیں۔ بامعنی ادب کی روشنی کو جہالت کی تاریکی ختم کرنے دو۔ علم اور تربیت سے گھٹے ہوئے دماغوں کو کھولنے دو۔ جہاں جنون کا راج ہے، وہاں با معنی ادب کو دانش کے بیج بونے دو۔ الفاظ کی لے، موسیقی اور نغمگی سے معطل روحوں کو بیدار کرنے دو۔ یہ کانفرنس ایکتا کی متقاضی ہے۔ کیوں کہ ایکتا سیدھا کھڑا ہونے کی اور سچ اور صرف سچ بولنے اور لکھنے کی جرأت پیدا کرتی ہے۔
بولنے اور لکھنے کی جس جرأت کا ذکر امر جلیل نے کیا اسی بارے میں ہمارے جید ادیب مشتاق احمد یوسفی نے بجا طور پر اس طرف اشارہ کیا کہ ہمیں قومی سطح پر اس وقت ایک مکالمے کی ضرورت ہے۔ اچھا مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں آزادی اور اطمینان کے ساتھ اختلاف بھی کیا جائے۔ اختلاف کو ختم کرنے کے لیے اختلاف کا اظہار ضروری ہوتا ہے چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ ادیبوں کا مکالمہ معاشرے کی قلبی کیفیات کو سامنے لاتا ہے اور ہر طرح کے مسائل کے لیے حل کی راہ پیدا کرسکتا ہے۔
امر جلیل اور مشتاق احمد یوسفی دانائے راز ہیں اور معاشرے کی نبض پر ان کا ہاتھ ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ قومی سطح پر ہمیں ایک مکالمے کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دانشوری اور ادب کے حوالے سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کا بیانیہ بدل رہا ہے، وہ جمہوریت اور آزادی فکر، آزادیٔ تحریر و تقریر کو اہمیت دے رہے ہیں لیکن انھیں اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو آزادیٔ فکر کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔
ہمارے سوچنے والے اور اپنی سوچ کا آزادانہ اظہار کرنے والے نوجوان سڑکوں سے اٹھائے جارہے ہیں، لاپتہ ہورہے ہیں اور ان کی یہ پر اسرار گمشدگی ان کے اہل خانہ کو اور ملک میں جمہوری سوچ رکھنے والے تمام لوگوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کررہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کانفرنس کے موقعہ پر بعض آزاد سوچ رکھنے والوں کا لاپتہ کردیا جانا، ادب کے حوالے سے کہیں صدر مملکت اور وزیراعظم کے اس بیانیے کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ تو نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ریاستی نہیں قومی بیانیے کی ضرورت ہے۔