پھول جیسے ننھے بچوں کیساتھ روز بروز بڑھتے جنسی واقعات کے پیش نظر، بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا، اور خطرناک صورتحال سے نبٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا، تعلیمی اداروں، معاشرے اور والدین کی اولین زمہ داری بن چکا ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے درندے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے جو کہ پاکستان میں ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق بچے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بہت ایمانداری کیساتھ بتاتے ہیں، اور عام طور پر زیادتی کرنے والے ان کے قریبی یا جاننے والے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی پر اندھا دھند اعتماد ہرگز نہ کریں، بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں اور بچوں کو بھی سکھائیں کہ اگر کوئی ان کے جسم کے پوشیدہ حصوں کو چھونے کی کوشش کرے تو وہ فوری طور پر والدین کوآگاہ کریں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں2017ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے768واقعات رجسٹرڈ ہوئے جن کے بارے میں کسی صوبائی یا وفاقی ادارے کے پاس کوئی ایسی تفصیل موجود نہیں کہ ان میں سے کتنے کیسوں میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انہیں سزائیں سنائی جاسکیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے علاوہ ان پر گھریلو تشدد، کم عمری میں شادی اور چائلڈلیبر کے تحت آنے والے دیگر نوعیت کے مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو صرف رجسٹرڈ جرائم کی تعداد 1764 بن جاتی ہے جبکہ اصل حقائق ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ مغربی ممالک میں تو انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کو جنسی زیادتی کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے، پاکستان کے ماہرین نفسیات و سماجیات کو بھی اس کے اسباب پر تحقیق کرنی چاہیے۔ مگر صد افسوس کہ آج معصوم بچے نفسیاتی امراض اور جنسی پراگندگی کا شکار ہو رہے ہیں لیکن اس طرف نہ تو صاحب اقتدار افراد،انتظامیہ، اور مقننہ توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی ہماری سماجی تنظیمیں اور میڈیا اس طرف کوئی ترجیحی قدم اٹھا رہے ہیں۔ جبکہ لوگوں کے رویوں کو تشکیل دینے اور ان پر اثر انداز ہونے پر میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا آگاہی بھی پیدا کرتا ہے اور ارباب اختیار کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ ان مسائل کو پبلک ایجنڈا میں شامل کرانے میں ہی میڈیا کی طاقت پوشیدہ ہے۔ میڈیا کا کردار صرف تفریحی ہی نہیں تعلیمی بھی ہوتا ہے۔
معاشرتی خرابیوں کے خلاف قانون بنانے کا مقصد معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ اگر پھر بھی حالات جوں کے توں رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون میں کوئی پہلو ایسا رہ گیا ہے کہ جس سے جرائم کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ بچوں کو جنسی استحصال کا آسان نشانہ بننے سے بچانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنا، بچوں کو خطرات سے نبٹنے کے لئے تکنیکی سہولتیں فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔
موجودہ حالات میں والدین اور ٹیچرز کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کے مسائل پر گفتگو کرکے ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھا جائے، ان کے بدلتے ہوئے رویوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، ان کو مختلف ناگوار واقعات اور رویوں کا سامنا کرنے کے طریقے سمجھائے جائیں، اوران کو بھرپور اعتماد بخشتے ہوئے والدین یا ٹیچر کی صورت میں محفوظ پناہ گاہ میسر ہونے کا قوی احساس دلایا جائے۔
بچوں کو نصابی تعلیم کے علاوہ حفظان صحت کے اصول ، کھیل کود کی اہمیت، انسانی جسم کی ساخت، جسمانی اعضاء اور ان کے افعال ، جسم کی نشو ونما، صحت کے مسائل، انسانی جسم میں عمر کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں، شیر خواری، بچپن، کمسنی، قبل از بلوغیت، بلوغیت، عمر کے ساتھ ساتھ ہونے والی جسمانی تبدیلیوں، جنسیاتی و ماحولیات مسائل وغیرہ اور حفاظتی تدابیر کی تعلیم دی جائے، بچوں کو نیت اور ارادے کے تحت انجام دئے جانے والے افعال کے بارے میں بتایا جائے۔ اور بچوں کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ کسی غیر کا بچوں کے پرائیویٹ باڈی پارٹس کو چھونا ایک نا پسندیدہ اور غیر مناسب عمل ہے۔ اور اگر کوئی شخص بچے کے پرائیویٹ پارٹس کو چھونے کی کوشش کرے تو بچے کو باآواز بلند ” نہیں ” کہنے کا حق حاصل ہے۔ اور کسی بھی خطرے کا احساس ہوتے ہی انہیں زور سے چلانا چاہئے اور فوراً گھر کی طرف یا کسی محفوظ مقام کی جانب بھاگنا چاہئے اور اس واقعے کی اطلاع اپنے والدین یا ٹیچر کو ضرور دینی چاہئے۔
بچے ہمارے معاشرے کا مستقبل اور روشن کل ہیں، ہر قیمت ہر ان کی حفاظت کرنا تمام مکاتب فکر کی اولین زمہ داری ہے، کیونکہ کوئی بھی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گھناؤنے واقعات کو برداشت نہیں کرسکتا۔