اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے بڑا شہرکراچی جس کی آبادی روز بروز بڑھتی جارہی ہے اس کی آبادی اندازاً دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے ، کراچی وہ واحد شہر ہے جس میں پورے پاکستان کے بسنے والے شہری اپنے روزگار کیلئے یہاں آتے ہیں اور یہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں، جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کیلئے کراچی سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہے ، کراچی میں آنے والے دیگر صوبوں کی شہری اکثر پولیس اور دیگر اداروں کے ملی ملاپ یعنی بھاری رشوت کے بعد غیر قانونی بستیاں آباد کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کراچی ایشیا
کا وہ واحد شہرہے جہاں بآسانی غیر قانونی بستیاں آباد کی جاسکتی ہیں اور جرائم پیشہ گروہ، مافیا دندناتے اپنے کاروبار کو پھیلاتے ہیں، سول انتظامیہ میں کئی ادارے ایسے ہیں جو خود ایسی آبادیوں کیوں راہ ہموار کرتے ہیں اور بسنے کیلئے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں کیونکہ ان اداروں میں پولیس، سی آئی اے، اینٹی کرپشن، بلدیات کا ادارہ سر فہرست ہے،بنارس سے لیکر کٹی پہاڑی اور نارتھ کراچی تک کی پہاڑی سلسلے میں تمام کی تمام غیر قانونی آبادیاں بسی ہوئیں ہیں جنھیں نہ عدالتیں ختم کراسکتی ہیں ،نہ پولیس، نہ حکومتی ادارے کیونکہ ان آبادیوں میں جرائم پیشہ عناصر کی بستیاں ہیں ،ان جرائم پیشہ عناصر کے آگے حکومت کی رٹ قائم نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ حکومت سے زیادہ مضبوط ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مفادات اور سیاسی مفاہمت ہے۔!! معزز قائرین! دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان کے خلاف اگر رینجرز یا فوج اقدامات کر بھی لے تو سندھ حکومت سے لیکر وفاق اور کے پی کے حکومت جمہوریت پر قدغن کے نعرے لگاتے تکھے گی نہیں کیونکہ ان آبادیوں میں وہ عناصر بھی ہیں جو ان سیاسی رہنماؤں کے کالے دھندے کرتے ہیں ، ان عناصر میں ایسے بھی ہیں جو پولیس کے کرپٹ افسران کی عیاشیوں کے سامان مہیا کرتے ہیں، ان عناصر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو منشیات کی فروخت کرکے کراچی کے عوام کو برباد کررہے ہیں، ان بستیوں میں عیاشی کے اڈے بھی ہیں توعورتوں ،لڑکیوں اور بچیوں کی فروخت کی منڈیا ں بھی سجائی جاتی ہیں، ان غیر قانونی بستیوں میں غیر قانونی بھاری اسلحہ بھی موجود ہیں لیکن ان کے خلاف اقدامات نہیں کیئے جاتے ، بنارس سے منسلک غیر قانونی آبادیاں، ، کٹی پہاڑی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں، ، قائد آباد سے منسلک
۲
غیر قانونی آبادیاں، سہراب گوٹھ میں غیر قانونی آبادیاں، خدا کی بستی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں، کورنگی و لانڈھی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں،نیو کراچی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں، شیر شاہ سے منسلک غیر قانونی آبادیاں، منگھو پیر سے منسلک غیر قانونی آبادیاں ، سپر ہائی وے سے منسلک غیر قانونی آبادیاں ، گلشن حدید سے منسلک غیر قانونی آبادیاں ،شیری جناح کالونی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں ،کماڑی سے منسلک غیر قانونی آبادیاں ،لیاری سے منسلک غیر قانونی آبادیاں اس کے علاوہ کچھ ایسی بھی آبادیاں ہیں جو قانونی ہیں مگر ان مین بسنے والے جرائم پیشہ لوگوں کی تعداد کثیر ہے ان میںسہراب گوٹھ میں واقع الآصف پلازہ سر فہرست ہے لیکن کراچی کی سول انتظامیہ ہو یا سندھ حکومت ان آبایوں پر چپ سادھ لی ہےاگر ان نشاہد کردہ جگہوں پر رینجرز یا افواج پاکستان کا آپریشن کیا جائے تو ممکن ہے نوے فیصد تک کراچی میں جرائم کم ہوسکتا ہے۔۔۔!! معزز قائرین! سن انیس سو پچاسی سے منتخب حکومتیں آئی لیکن کبھی بھی کراچی میں بڑھتی ہوئی غیر قانونی آبادیوں کو روکا نہیں گیا بلکہ دیکھا تو یہ گیا کہ غیر قانونی
ٓآبادیوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیایہاں تک کہ سرکاری تمام اراضی لینڈ مافیا کے ہتھے چڑھ گئیں، ان غیر قانونی آبادیوں نے
کراچی جرائم کی دنیا بن کر رہ گیا ہے ، بظاہر حکومتی دعویٰ چلتے چلے آرہے ہیں کہ ہم جرائم پر قابو پالیں گے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب با اختیار لوگ حقیقت کا سامنا کریں اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرنے سے باز رہیں ۔۔۔!! معزز قائرین! سپریم کورٹ کے حکم سے ایک بار پھر اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے کیلئے یونین کونسل کے انتخابات کرائے گئے لیکن ابھی تک انہیں اختیارات فراہم نہیں کیئے گئے ہیں، کراچی میں یونین کمیٹیوں کی تعداد دو سو سولہ سے کم کر کے دو سو تیراکردی گئی ہے ۔ کراچی ضلع غربی میں چھیالیس ،کراچی ضلع جنوبی میںاکتیس ، کراچی ضلع شرقی میں اکتیس ، کراچی ضلع کورنگی میںسینتیس ، کراچی ضلع وسطی میں اکیاون اور کراچی ضلع ملیر میںسترہ یونین کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ کراچی ضلع ملیر کی یونین کمیٹیاں پہلےبیس تھیں اور اب کم کر کے سترہ کردی گئی ہیں، جبکہ کراچی ضلع جنوبی کی یونین کمیٹیوں کی تعدادانتالیس سے کم کر کے اکتیس کر دی گئی ہے اور کراچی ضلع غربی کی یونین کمیٹیوں کی تعداد چھیالیس سے بڑھا کر چھتیس کر دی گئی ہے اور کراچی ضلع غربی میں نئی پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل ایک ضلع کونسل قائم کردی گئی ہے ، جبکہ سترہ یونین کونسلوں پر مشتمل ایک ضلع کونسل پہلے سے ہی قائم ہے اور اب کراچی میں یونین کونسلوں کی مجموعی تعداد تئیس ہوگئی ہے ۔۔۔!!معزز قائرین!بڑی تحقیق اور جائزہ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ روز بروز دن دھاڑے لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کی روک تھام کیلئے محکمہ داخلہ سندھ کو کراچی کے ہر یونین کونسل کی سطح پر تھانے بنانا چاہیئے تاکہ کم ایریا ہونے سے پولیس نفری اپنی خدمات کو بہتر انداز سے پیش کرسکے اور سالانہ بہترین کارکردگی کی بنیاد پر تمغے ، انساد اور دیگر مالی تحائف پیش کیئے جائیں تاکہ ہر انچاج تھانہ اپنے خدمات کو بہتر انداز میں پیش کرسکے، آج کے دور میں چند گاڑیوں پر مشتمل ایک تھانے کی حدود اس قدر وسیع ہوتی ہے کہ وہ اطلاع ملنے کے بعد جائے وقع پر پہنچتے پہنچتے کئی منٹ لگ جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ
۳
فاصلہ، ٹریفک کا رش، روڈ کا ٹوٹ پھوٹ بھی شامل ہے، غیر قانونی آبادیوں کا انخلا لازم قرار دیا جائے اور ان جگہوں پر سرکاری سطح پر پارک، میوزیم، تفریح گاہیں ، لائبریری یا پھر قانونی آبادیاں بنائی جائیں تاکہ جرائم پیشہ افراد بستیوں میں گھس نہ سکیں۔ہریونین کونسل پر مشتمل تھانے کی ذمہ داری عائد کی جائے کہ وہ اپنے اپنے حدود میں ہر گھر، ہر فلیٹ، ہر دکان الغرض حدود میں آنے والی تمام کاریکارڈ اپنے اپنے تھانوں میں کمپیوٹرائز رکھیں کیونکہ اب پاکستان سن دوہزار سترہ سے گزر رہا ہے کڑوروں روپہ جدید خطوط پر لیئے جارہے ہیں تو تھانے بائیو سسٹم سے محروم کیوں ؟؟؟ کیوں انسپکٹر جنرل صاحب وزرا کے چپڑاسی کا کردار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ؟؟؟ کیوں قابل ،اہل اور محنتی انسپکٹر جنرل سمیت تمام اعلیٰ پولیس افسران کی پزیرائی نہیں کی جاتی ؟؟؟ کیوں اور کب تک ہمارے سیاسی لیڈران، سیاسی جماعتیں ، منتخب ممبران عوام کو عملی اقدامات سے محروم کرتی رہیں گی؟؟؟ کیوں اور کب تک یہ سیاسی لیڈران اور با اختیار سیاسی وزرا و مشیران آپس کی چپکلش میں مبتلا رہیں گے ؟؟؟ کیوں اور کب تک یہ با اختیار لوگ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے رہیں گے ؟؟؟ کیوں اور کب تک سندھ سمیت پاکستان بھر کے سیاسی لیڈران اپنے جھوٹے وعدے پر قائم رہیں گے ؟؟؟ کیا ہمارے نوکر شاہی طبقے اورہماری افواج میںاتنی بھی اخلاقی جرات نہیں کہ ان با اختیار لوگوں کو سمجھائے، سمجھ نہ آئے تو ان کی بے حسی، لاپروائی، بے شرمی، جھوٹ ،مکارپن اور بلیک میلنگ کا خاتمہ جڑ سے ختم کردے ، کیا کھبی ایسا ممکن ہوگا، کیا پاکستان خوشحال و مستحکم بن سکے گا ۔ جب تک کرپشن ہے دہشتگردی ہو یا لوٹ مار یا پھر ٹارگٹ کلنگ کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی اس کیلئے لازم ہے کہ پولیس کے محکمہ کو پورے پاکستان میں آزاد خودمختار بنایا جائے تاکہ تفتیشی افسر بغیر کسی دباؤ اپنی تفتیش مکمل کرسکے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان جرائم پیشہ سیاسی لوگوں کے ہاتھوں یونہی جلتا رہے گا،اگر پی پی پی، پی ایم ایل این، پی ٹی آئی ،ایم کیو ایم، جے آئی،جے یو آئی سمیت دیگر صوبوں کی با اختیار سیاسی جماعتیں جمہوری اور سچی عوامی جماعت ہیں تو ممکن ہے یہ تھانوں کو یونین کونسل کی سطح پر بناکر سول انتظامیہ کو بہتر بنانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گی بصورت یہ ہی نہیں چاہتی کہ پاکستان کی عوام سکھ چین سے جیئے، سب دیکھنا ہے کہ الیکشن دو ہزار اٹھارہ سے قبل کونسی جماعت اپنے قوم کیلئے تھانوں کے نظام کو یونین کونسل کی سطح پر طے کرتی ہے اور انہیں کس طرح بہتر فنڈ کے ذریعے مثالی تھانے بناتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا بحیثیت ایک صحافی ایک پاکستانی ان جماعتوں کو ایک
نظریہ پیش کردیا ہے دیکھتے ہیں کون پہل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ !!!اللہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین ثما آمین ۔۔۔پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد