ماہرین حیوانات کہتے ہیں کہ دُم جانوروں کے جسم کا فطری حصہ ہے ، جس کے بغیر وہ ادھورے ہیں ۔ اس سے وہ اپنے نازک حصوں کی حفاظت کے علاوہ کئی ضروری امور بجا لاتے ہیں۔ کئی جانورموقع کی نزاکت کے مطابق اپنی دم دبا کر بھاگ بھی جاتے ہیں ۔ گویا وہ بھاگنے کے لئے بھی دُ م کا استعمال کرتے ہیں ۔ ایک دم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر اسے سو سال تک لوہے کے پائپ میں رکھا جائے تب بھی وہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔ کسی دم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر اس پر پائوں آ جائے تو حامل دم بلبلا اٹھتا ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی شکل و صورت کے ارتقاء کے ابتدائی دور میں اس کی بھی دم ہوتی تھی۔ بعد میں اس ارتقائی سفر کی اگلی منزلوں میں انسان کی دم ختم ہوئی ، ورنہ اس سے قبل تو انسانوں اور جانوروں کی عادات و اطوار اور بودوباش میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اگر آج بھی کسی جسم کی غیر فطری افزائش کے نتیجے میں انسان کی دم نکل آئے تو اس میں حیوانی جبلت سرایت کر جاتی ہے اور وہ نارمل انسان تصور نہیں کیا جاتا۔ گویا جس طرح دم کٹا جانور ادھورا ہے ، اسی طرح دم والا آدمی بھی مکمل انسانی خصوصیات سے عاری ہو جاتا ہے ۔ طبی ماہرین اور سماجیات کے اساتذہ کے نزدیک ایسی دموں کو کاٹ دینا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں ۔
انسانی دم نکلنے کی حالیہ خطرناک مثال پڑوسی ملک بھارت میں سامنے آئی۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسم کی ابنارمل افزائش کے واقعات میں یہ سب سے بڑی دم ریکارڈ کی گئی۔ میڈیا کی خبر ہے کہ ناگپور کے ڈاکٹروں نے آپریشن کے ذریعے ایک لڑکے کی 18سینٹی میٹر دم کاٹ دی ۔ نیوروسرجری ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر مودگیری نے بتایا کہ لڑکے کے خاندان کو اس دم کی غیر معمولی افزائش کا علم تھا لیکن معاشرے کے طعنوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے اس نے ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کیا۔ تاہم جب دم میں ہڈی بننا شروع ہوئی تو مریض کے درد میں بتدریج اضافہ ہوا اور اسے اٹھنے بیٹھنے میں شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ، تب خاندان والے اسے اسپتال میں لائے ۔ اگرچہ خبر میں تو نہیں کہا گیا لیکن بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ درد اور تکلیف کے علاوہ مریض میں حیوانی عادات بھی حلول کر گئی ہوں گی جن سے پریشان ہوکر مجبوراً خاندان والوں نے لڑکے کو اسپتال لانے کا فیصلہ کیا۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ کئی لوگ جن کی دمیں نکلی تھیں ، اب ان میں ہڈیا ں بننی شروع ہوئی ہیں تو انہوں نے ابنارمل اور حیوانی حرکات شروع کر دی ہیں، لیکن کبھی ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کیا۔
دریں حالات ہم کہہ سکتے ہیں کہ دم نکلنے کا اثر براہِ راست بندے کے دماغ پر پڑتا ہے ۔ ایسا کوئی بھی مریض دنیا کے طعنوں اور دیگر مسائل کی بنا پر خود ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتا ، یا یوں کہیں کہ دم کے دماغ پر اثرات ہذا کی وجہ سے اسے خود اپنے علاج کا شعور نہیں رہتا۔ بھارت کے ’’ڈاکٹر وں‘‘کو چاہئے کہ وہ مشنری جذبے کے تحت میدان میں اتریں اور اپنے ملک سے ایسے ’’دمدار ستاروں‘‘ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی دمیں کاٹ دیں ۔ ان کے دیش میں انسانوں کی دمیں نکلنے اور ان میں ہڈیا ں بننے کا رحجان اتنا خطرناک ہے کہ جو خود ان کے معاشرے کو تہہ و بالا کرنے کے علاوہ دنیا کے امن کو بھی تباہ کرنے کے لئے پرتو ل رہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے اُڑی میں بھارتی فوج پر حملے کے بعد وہاں جن لوگوں کی دموں میں ہڈیاں بننی شروع ہوئی ہیں ،وہ پاکستان پر اس حملے اور سرجیکل اسٹرائیک جیسے بودے الزامات لگانے ، اس پر حملوں کے منصوبے بنانے ، اس کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنے ،اسے دنیا میں تنہا کرنے اور کشمیریوں کی تحریک غیر انسانی طریقے سے کچلنے جیسے اقدامات کے ذریعے خطے میں کشیدگی بڑھانے پر کمربستہ ہیں ۔حتیٰ کہ اب وہ 65ء سالہ پرانے سندھ طاس معاہدے کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ،جس کی ثالثی ورلڈ بینک اور مغربی ممالک نے کی۔ اس معاہدے میں کشمیر سے بہہ کر پاکستان کے علاقوں کو سیراب کرنے والے چھ دریائوں کے استعمال کے حقوق دونوں ممالک میں تقسیم ہوئے تھے۔ معاہدے کے مطابق دریائے ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ چناب، سندھ اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے میں پاکستان کو کوئی خاص رعایت نہیں دی گئی بلکہ دریائوں کے قدرتی رخ اور جغرافیائی حقائق کے مطابق دونوں ملکوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا۔
دریائوں کے پانی کی شراکت اور تقسیم کے معاہدے برصغیر کے علاوہ دوسرے ممالک کے درمیان بھی موجود ہیں۔ تاہم مصر، لبنان، عراق اور ترکی جیسے ممالک نے باہمی اختلافات اور کشیدگی کے حالات کے باوجود کبھی پانی کو جنگی ہتھیار نہیں بنایا کیونکہ وہ اس کے مضمرات سے آگاہ ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے چناب اور جہلم پر بجلی کی پیداوار کے کئی منصوبوں کا خاکہ تیار کر رکھا ہے لیکن سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ان منصوبوں پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ جن سیاسی قیادتوں نے سندھ طاس معاہدے کی بنیاد رکھی ان کے پیش نظر مشترکہ قدرتی وسائل سے باہمی تعاون کے ساتھ استفادہ کرنا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے اس معاہدے کی تکمیل کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی اور جنگوں کے دور شروع ہوگئے اور اس معاہدے کے ثمرات خواب بن گئے۔ اس ’’خواب‘‘ کی ایک بڑی وجہ بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیاں ہیں جو یکطرفہ فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر دونوں ممالک باہمی تعاون سے توانائی کے نئے منصوبوں کی بنیاد رکھیں تو اس میں دونوں کا فائدہ ہے اور اسی میں ہر دو ممالک کے لئے خوشحالی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔ تاہم ترقی کے اس سفر میں رکاوٹ مذکورہ دمیں ہیں، جن میں ایک دفعہ پھر ہڈیا ں بننی شروع ہو گئی ہیں۔
پڑوسی ملک کے فلمی ستارے جتنے دلکش ہیں، دمدار ستارے اتنے ہی قبیح صورت۔ اڑی حملے کے بعد بھارت کے ’’دمدار ستاروں‘‘ نے ایک دفعہ پھر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے پانی کو روکنے کے منصوبے بنانے شرو ع کر دیئے ہیں۔ اس نازک موقع پر بھارتی اور عالمی ’’ڈاکٹروں‘‘ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی منصوبوں سے جہاں کشمیر میں ہر طرف سیلاب آ جائے گا ،وہاں اگر چین نے یہی حربہ استعمال کرتے ہوئے تبت سے آنے والے براہم پترا یا گنگا دریا کا رخ موڑ دیا تو پڑوسی ملک کے دمدار ستاروں کی دموں پر ایسا پائوں پڑے گا کہ وہ بلبلا اٹھیں گے ۔ بھارت کے جنگی جنون کے نتیجےمیں پاک فوج کی جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں ان دمدار ستاروں کو دم دبا کر بھاگنا بھی پڑ سکتا ہے ، جس سے پڑوسی ملک کی دنیا میں سبکی ہوگی ۔ پس بھارتی ڈاکٹروں کو دیر نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں شرمانے اور دنیا کے طعنوں کو خاطر میں لائے بغیر ڈھیٹ ہڈیوں والی ایسی دموں کو فوراً کاٹ دینا چاہئے ، جوانہتر سال میں بھی سیدھی نہیں ہو سکیں …تاکہ دمدار ستارے نارمل ہو سکیں اور خطے کا امن بحال ہو سکے ۔
نوٹ:وطن عزیز میں بھی کئی دمدار ستارے پائے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر آئندہ کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔وقار خان، بشکریہ روزنامہ جنگ