اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے زیر زمین پانی کے استعمال کے کیس میں صوبوں اور وفاق کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس مسترد کر کرتے ہوئیسفارشات پر شق وار جواب طلب کرلیا اور کہا کہ تمام صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں، رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نےکچھ نہیں کیا ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بار بار کہا ہے کہ پانی سے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، کوئٹہ میں زیر زمین پانی 12 سو فٹ پر چلا گیا ہے اور گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو رہا،پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، نہ آپ لوگوں کی نیت ہے نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی تو اس موقع پر زیر زمین پانی کے استعمال پر صوبوں کی جانب سے ٹیکس لگانے میں پیش رفت نہ ہونے پر چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔عدالت نے پانی سے متعلق صوبوں کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے بار بار کہا ہے کہ پانی سے متعلق جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، کوئٹہ میں زیر زمین پانی 12 سو فٹ پر چلا گیا ہے اور گوادر میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہو رہا۔سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک صوبوں کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ہی اس حوالے سے آگہی مہم شروع ہوسکی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے پانی نایاب ہونا شروع ہو چکا،سونے کی قیمت پر بھی نہیں ملے گا، نہ آپ لوگوں کی نیت ہے نہ صلاحیت، میں کہتا ہوں تو پھر خبر لگ جاتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا منرل واٹر کمپنیاں پانیاستعمال کر رہی ہیں، بتایا جائے صوبوں اور وفاق نے کیا میکینزم بنایا ہے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلی اور کابینہ کو سمری بھجوا دی ہے جب کہ سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پانی کی قیمت اور استعمال سے متعلق رپورٹ دی ہے جس میں چند تجاویز پیش کی گئیں ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بوتل کے پانی کے علاوہ صنعتوں میں پانی کے استعمالکی قیمت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا صنعتیں استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنائیں، لاہور ہائیکورٹ کے جج کی اچھی تجویز ہے کہ مساجد میں وضو کا استعمال شدہ پانی دیگر کاموں میں استعمال کیا جائے۔سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹس مسترد کردیں اور قرار دیا کہ رپورٹس آنکھوں میں دھول جھونکنے کےمترادف ہیں، عملی طور پر متعلقہ صوبوں اور اسلام آباد انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کی سفارشات پر وفاق اور صوبوں کو عملی اقدامات کا حکم دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے جمع کروائی گئی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے سفارشات پر شق وار جواب طلب کرلیا اور کہا کہ تمام صوبے اور وفاق دو ہفتوں میں عملی اقدامات کر کے جواب دیں۔