تحریر: ابن ریاض (سعودی عرب)
ہم چند دن کے لئے منظر سے غائب کیا ہوئے ہمارے قارئین کی گویا جان چھوٹ گئی ہماری ہفتہ وار بے زار تحاریر سے اور انھوں نے اپنے اعصاب کی چمپی ہروائی اور اچھی اچھی تحاریر پڑھنے لگے۔ ہم انتہائی دکھ کے ساتھ اپنے قارئین کو یہ روح فرسا خبر سناتے ہیں کہ ہماری غیرحاضری وقتی تھی اور اب ہم آپ کے اعصاب پر بجلیاں گرانے کو بے چین ہیں۔سعودی عرب میں آب و ہوا گرد آلود ہے اور یہاں بریدہ میں تو رہت کے جھکڑ چلتے ہی ہیں۔ تو کچھ دن سے رات کو سوتے میں ہمیں ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے آنکھ میں کوئی کنکر چلا گیا ہو۔
ہم اٹھ بیٹھتے۔ آنکھ مین پانی ڈالتے۔ کبھی آرام آتا کبھی نہ آتا۔ آنکھ خود اپنا پانی نکالتی اور ہماری آنکھ کے کنکر (شھتیر کو نہیں) کو بہا لے جاتی اور ہم پھر سو جاتے۔ اس سارے واقعے کی ہم بیگم کو خبر نہ ہونے دیتے کہ انھوں نے واقعی شہتیر سمجھ کر ہمیں ڈاکٹروں کے سامنے حاضر کر دینا تھا اور ہمیں ڈاکٹر بہت اچھے لگتے ہیں جب تک کہ ہمارا اپنا واسطہ ان سے نہ پڑے۔ اس کے علاوہ ہماری اپنی رائے میں انسان کے اندر بھی مدافعتی نظام ہے جو کہ اگر کوئی مسئلہ ہو بھی تو اس کا بتدریج علاج کر ہی دیتا ہے۔ ایسا گذشتہ دو تین ہفتوں سے جاری تھا اور ہم صبح تک بھول جاتے تھے مگر اس بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ جب آنکھ کے کنکر نے دیکھا کہ یہ بندہ تو اسے وقعت ہی نہیں دے رہا تو اس نے عجیب چال چلی۔ ہفتے کے روز ہم ہفتہ وار تعطیل کے مزے لیتے ہوئے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ تبصرہ بھی جاری تھا۔ اتفاق سے ہم پیر بنے ہوئے تھے۔
یعنی کہ ہماری پیشین گوئیاں کہ اب آئوٹ ہوا افریقی بلے باز ماشاء اللہ بہت ٹھیک جا رہی تھیں اور ہم سوچ رہے تھے کہ عالمی کپ کے بعد لوگوں کو ان کا مستقبل بتایا کریں گے کہ اچانک وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا انکھ کوایک دم سے دائیں آنکھ میں وہ درد ہوا کہ کڑاکے نکل گئے۔ ہم یہ بتاتے چلیں کہ پہلے بھی ہمیشہ اسی آنکھ میں درد سا اٹھتا تھا۔ ہم نے کرکٹ چھوڑی۔اور بیسن پر جا کر چھینٹے مارے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا۔ آنکھیں بند کر کے مراقبے میں بھی گئے کہ آنکھ خود ہی کچھ کر لے مگر نا جی ناں۔ جب حالت نہ سنبھلی تو بیگم کو بھی پتہ چل گیا۔ بیگم نے کہا کہ چلو ہسپتال۔ ہم نے آئیں بائیں شائیں کی کہ ابھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ اصل تکلیف میچ چھوڑنا تھا۔ مگر آنکھ تھی کہ لال ہوئی جاتی تھی اور آرام کی صورت بھی نہ دکھی تو طوہًا و کرہًا اٹھنا ہی پڑا۔آنکھیں اب تکلیف سے بند تھیں۔
یہاں پاکستان جیسا حال نہیں کہ جب چاہو ہسپتال چلے آئو یا ہسپتال میں کوئی نہیں تونجی کلینک چوبیس گھنٹے خدمت کو مستعد۔ یہاں نجی شفا خانوں کا تصور نہیں اور عام ہسپتال میں بھی تعطیل کے دوران صرف ایمرجنسی کی سہولت موجود اور بس۔ اپائنٹمنٹ مہینوں بعد ملتی ہے اپنے دوست کو لیا اور پہنچ گئے اسپتال کی ایمر جنسی میں۔ادھر ہم ہسپتال کے لئے روانہ ہوئے۔ ادھر درد بھی کم ہو گیا اور آنکھیں بھی پٹر پٹر دیکھنے لگیں۔ انھوں نے ہمارا فشار خون دیکھا اور پھر بخار کا معائنہ کیا۔ پھر ایک مصری ڈاکٹر نے پوچھا کہ بتا تیری رضا کیا ہے؟ کیوں آئے ہو؟ ہم نے سمجھایا کہ آنکھ میں کنکر چلا گیا ہے۔ انھوں نے ہمیں بیڈ پر لیٹنے کو کہا اور اک خوبرو نرس سے کہا کہ ہماری آنکھیں دھو دے۔ آپ لوگ ہماری قسمت پر رشک نہ کریں کہ وہ مکمل پردے میں تھی اور ہم نے اپنی خوش گمانی کی بدولت اسے خوبرو کہا۔ خیر اس نے ہماری آنکھ کو دھویا غالبًا عرق گلاب سے۔ اس کے بعد کچھ اور قطرے آنکھ میں ڈالے۔پھر ڈاکٹر کو بلایا۔ اس نے میرے آنکھ کا معائنہ کیا ایک بلب سے۔ اور میرے دوست کو میری آنکھ کی پتلی دکھائی اور کچھ کہا جو کہ وہ بھی کچھ سمجھا اور کچھ نہ سمجھا۔ وہ سمجھا کہ پتلی پر نشان ہے۔ اس کے بعد اس نے نرس سے کہا کہ آنکھ پر پٹی باندھ دو۔ یوں ہم بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے مہاراجہ رنجیت سنگھ ہو گئے کچھ قطرے دیے آنکھوں میں ڈالنے کے اور ہمیں رخصت کیا۔ اس کے علاوہ ہم نے سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے لگے۔ کیا مرد کیا زن، سب سے ہی ہم ٹکراتے اگر دوست اور بیگم ساتھ نہ ہوتے۔گھر آ کر ہم نے قطرے آنکھ میں ڈالے اور از سر نومسلمان ہوئے پٹی اتار کر۔کچھ دیر بعد ہم ہشاش بشاش تھے اور میچ پر تبصرے دیکھ رہے تھے اور خود بھی کر رہے تھے۔ ایسے ہی رات ہو گئی اور ہم پھر دوا ڈال کے سو گئے۔
ایک بار پھر رات کو دو بجے ہمیں تکلیف ہوئی اور ہم نے دوا ڈالی۔ مگر تکلیف میں شدت ہی آتی گئی۔ صبح تک دونوں آنکھیں بند تھیں۔ کیونکہ اگر بائیں آنکھ کو بھی کھولنے کی کوشش کرتا تو دائیں پر بھی زار پڑتا اور اس میں مزید تکلیف در آتی۔ ساری رات ہماری اسے ہی گزری آنکھوں میں۔ صبح پھر ڈاکٹر کے پاس گئے اپنے ایک جاننے والے کے توسط سے۔ اس بار ہمارے پاکستانی بھائی تھے اور ماہر امراض چشم بھی۔انھیں ہم نے تمام صورتحال سے آگاہ کیا کہ کذشتہ ورز ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ انھوں نے ہماری آنکھ کو معمولی سا کھول کے اس میں کچھ ڈالا تو ہماری آنکھ کھلی کی کھلی رہ گئی۔ یعنی کہ ہمیں کچھ سکون ملا اور آنکھ اب حرکت کرنے لگی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی مشین سے ہماری دونوں آنکھوں کا معائنہ کیا اور بتایا کہ ہماری آنکھ کی پْتلی پر زخم ہیں۔ اور یہ کہ ہمیں جو دوا دی گئی وہ ٹھیک نہیں تھی جس کے باعث آنکھ میں رات بھر تکلیف رہی۔وجہ کے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرل انفکشن ہے۔ ہم سے پوچھا کہ کب سے ہے تو ہم نے کہا کہ کم و بیش دو ہفتے۔
کہنے لگے کہ اب یہ کچھ پرانا ہو گیا ہے ٹھیک ہونے میں دس دن لگ سکتے۔ ہمیں انھوں نے ٹی وی، لیپ ٹاپ استعمال کرنے سے منع کر دیا اور گاڑی چلانے سے بھی۔ ہم نے کہا کہ ہم لیکچر دے سکتے ہیں تو سوال ہوا کہ کیا آپ معلم ہیں۔ ہمارے اثبات پر انھوں نے ہمیں ایک ہفتے کی چھٹی لکھ دی۔اس طرح پچھلے ایک ہفتے سے ہمارا لیپ ٹاپ بہت مزے میں ہے کہ بیگم اسے کمرے سے دور لے گئی۔ ٹی وی بھی خال خال ہی لگا۔ تاہم چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے اورچھٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ سے لگی ہوئی ہم موبائل پر بیگم سے انکھ بچا کر میچ سکور اور اپنے پیغامات پڑھتے رہے۔ اس ہفتے کے دوران ہم اپنے احباب سے ملنے مدینہ کا بھی چکر لگا آئے تاہم احتیاط کے پیش نظر سفر پبلک ٹرانسپورٹ سے کیا۔فی الوقت ہماری آنکھ کم و بیش اسی فیصد ٹھیک ہو چکی ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی سو فیصد ہو جائے گی۔
تحریر:ابن ریاض(سعودی عرب)