تحریر : سید نثار احمد
اردو کو عام کرنے اور ہر جگہ اردو کی ترویج ایک اچھا خواب ہی نہیں بلکہ نیک مقصد بھی ہے۔
لیکن اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کاوش کیسی ہونی چاہئے؟ تعبیرِ خواب روبہ عمل کون لائے گا ؟ اور ذمہ داری کس کی ہے؟ آج کل انٹرنیٹ عام ہے، ہر اردو والے کے پاس ایسے گیجٹس ہیں جس سے وہ انٹر نیٹ پر سیر کرتا ہے۔ سرچ انجنس بھی اچھی تعداد میں ہیں۔ یونی کوڈ سسٹم بھی آگیا ہے، جو کہ دنیا کی دیگر زبان والوں کے لیے ایک نایاب تحفہ بھی ہے۔ گوگل اِن پُٹ ٹولز، اردو فونٹس بھی کافی اچھی شکل میں دستیاب ہیں۔ مزید خوشی کی بات ہے کہ کی بورڈ اور کی بورڈ لے آئوٹس بھی موجود ہیں۔ ڈیسک ٹاپ، لیپ ٹاپ، نوٹ بکس، موبائیل، ٹیب وغیرہ بھی آج کل ہر کس و ناکس کو مہیا ہیں۔
نیٹ پر اردو کے کئی پورٹلز ہیں جو اردو کے اور اردو میں کئی موضوعات پر معلومات فراہم کرنے میں دن رات فعال ہیں۔ اردو اخبار، روزنامے، ہفت روزہ، ماہنیا مے بڑی تعداد میں اردو احباب سے جڑنے اور اردو احباب کو جوڑنے میں گامزن ہیں۔ بلاگس کی بھی کمی نہیں ہے۔ اردو اداروں کے بھی بے شمار ویب سائٹس ہیں، جن پر ان اداروں کے مقاصد و کارروائیوں کے متعلق معلومات کا بھنڈار پڑا ہے۔ مذہبی ادارے، مدارس و دیگر اداروں کے سائٹس بھی ہیں جو اردو سے سرشار ہیں۔ حکومت اور حکومتی اداروں کے بھی لاتعداد ویب سائٹس ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے اردو زبان کا آپشن بھی موجود ہے۔سیاسی پارٹیاں بھی اپنی ویب سائٹس پر جانکاریاں، مینی فیسٹو اور دیگر اہم معلومات کو اردو میں جاننے کا آپشن بھی دے رکھا ہے۔ پچھلے دنوں جب یونی کوڈ کی سہولت نہیں تھی، املاف (امیج ) کی شکل میں اردو کا مواد رہتا تھا اور آج بھی کئی پورٹلس پر مروجہ ہے۔
ان سب مواقع جال یعنی ویب سائٹس پر اردو کا مواد ، یوں سمجھئے کہ خزانہ موجود ہے۔ مگر ان کے قارئین حضرات کی کمی نظر آرہی ہے، جس کی وجہ سے یہ ادارے بھی کبھی کبھار اپنے ویب سائٹس کو اپڈیٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ نیٹ پر آنلائن اردو کتب خانے بھی اچھی تعداد میں موجود ہیں۔ جو اردو احباب کی خدمات کے لیے کھُلے رکھے گئے ہیں۔ آنلائن ڈیجیٹل کتب خانے بھی موجود ہیں، جو اردو احباب کے لیے حاضر ہیں۔ دائرةالمعارف بھی موجود ہیں، جن کی معلومات اردو احباب کو نہیں ہیں، اگر ہیںبھی تو بہت کم۔ لیکن ان تمام سائٹس اور پورٹلس کا علم اردو احباب کو کم ہونے کی وجہ سے ان پورٹلز پر ٹریفک بالکل کم ہے۔ بہت سارے پورٹلز ایسے بھی ہیں جن کا تعارف اور رسائی اردو احباب تک نہیں ہے، جس کی بناء پر غیر معروف رہ گئے ہیں۔ یوں لاتعارف اور غیرمعروف ہو کر رہ جانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ اردو احباب کی۔
کئی موضوعات پر اردو میں مواد بھرا پڑا ہے، جو کہ نادیدہ حالت میں بیمار و لاچار ،اُس کے قاری کے انتظار میں فراق کی گھڑیاں گن گن کر انہیں نوٹ کررہا ہے۔ ہمارے اردو احباب ہیں کہ اردو کو عام تو دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن عام کرنے سے کتراتے ہیں، جی بھی چراتے ہیں۔ ایک اور اچھی عادت ہمارے اردو احباب کی، وہ یہ کہ اپنا تعارف نیٹ پر دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن علم و فراست سے لبریز خزانے کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ جب تک اردو احباب کے اس مرض کا علاج نہیں ہوجاتا اردو بیمار ہے گی، یعنی کہ اردو کو صحت مند حالات بخشنے کی مکمل ذمہ داری اردو احباب کے کندھوں پر ہی ہے، جو کہ لاپرواہ ہیں۔ اردو کے خالص خدمت گذار احباب، جو کہ گنتی کہ چند ہی کیوں نہ ہوں، اپنا قیمتی وقت، سرمایہ، ذہن و دل لگا کر اردو پورٹلز، اخبار، ویب سائٹس کو منظر عام پر لاتے ہیں، اس امید سے کہ زبان، ثقافت اور معاشرے کا بھلا ہوجائے۔ قارئین کی توجہ حاصل کرنے، اس کی خوبروئی اور دیدہ زیبی کا بھی بے انتہا خیال رکھتے ہیں اور اہتمام بھی۔
آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، اس تقابلی دور میں تکنیکی طور پر بھی شانہ بشانہ چلنے کی ان تھک محنت کرتے ہیں۔ چوں کہ ان پورٹلز سے انہیں کوئی آمدنی نہیں ہوتی، اپنی جیب سے اس کا خرچ اُٹھاتے ہیں۔ اپنے اہل و ایال پر جس رقم کا حق ہے وہ بھی اردو پر نچھاور کرتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ اردو بھی پھلے پھولے گی، ہوسکتا ہے کہ ذریعہ معاش کی بھی صورت نکل آئے گی۔
افسوس کہ آنلائن پر مفت میں فراہم اس بیش قیمت ہدیات کی طرف اردو احباب کی نظر تک نہیں جاتی۔ اگر جاتی بھی ہے تو راستے ہی میں دم توڑدیتی ہے۔ احساسِ ایثار دور کی بات، ذمہ داری کو سمجھنے کا بنیادی اور فطری حِس بھی سرابی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔ کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اردو سائٹس، اخبار، پورٹلز پر جا تو سکتے ہیں!
انہیں پڑھ تو سکتے ہیں! لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور معلومات سے سرفراز بھی۔ اگر اردو احباب ایسا نہ کریں گے تو اُن سائٹس، پورٹلز اور اخبار چلانے والے حضرات کے حوصلے مجروح ہوجائیں گے۔ اُن کی ہمت بیٹھ جائے گی اور دم توڑ دے گی۔ اور رفتہ رفتہ یہ پورٹلز لاتعارف اور غیر معروف ہوتے چلے جائیں گے۔ اور بے لوث ارادوں سے آگے آئے ہوئے احباب اپنے پورٹلز کو بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، جس کے ذمہ دار اردو احباب خود ہیں۔ نیٹ پر اردو امیر ہے مگر اس کا قاری غریب۔۔۔۔
٭٭٭٭
تحریر: سید نثار احمد احمد نثار
شہر پونہ، مہاراشٹر، انڈیا
Email : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in