تحریر : ابن نیاز
کیا آپ کا کبھی کنجوس لوگوں سے پالا پڑا ہے؟ خاص طور پر منہ بولے کنجوس رشتہ داروں سے۔ اور مزید خاص طور پر جو لاسلکی ذرائع سے بنے ہوں۔ ارے حیران کیوں ہو گئے آپ لوگ۔ یقیناً پڑا ہو گا اور بڑے بڑے مہا طرم خانوں سے پڑا ہو گا۔ لیکن میں جن کا ذکرِخیر کرنے جا رہا ہوں، اب آپ واقعی پریشان ہوجائیں گے کہ یہ ذکر کرنے کی کیا سوجھی۔ لیکن آپ جب سنیں گے یاپڑھیں گے تو آپ بھی کہیں گے کہ واہ ابن ِ نیاز کیا لکھا ہے اور کیا ذکر کیا ہے۔ ویسے ان کا ذکرِ خیر کرنے کا ایک مقصد دنیا کو ایسے لوگوں سے دور رکھنا ہے تا کہ وہ اپنے ارد گرد ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں۔ اور نہ تو ایسے افراد سے کوئی رابطہ رکھیں اور نہ ہی کوئی میل جول۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ ان سے کبھی بھی خاص طور پر انکی خوشی میں کوئی دعوت، یا چیز نہ طلب کریں، جس کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے آپ کو اپنی خوشی میں شامل کیا ہے۔ جب آپ انھیں لفٹ نہیں کرائیں گے تو شاید ان کو شرم آجائے اور وہ کنجوسی چھوڑ دیں، ورنہ تو وہ کہتے ہیں کہ ان کو شرم تو آتی ہے لیکن پاس سے گزر کر چلی جاتی ہے۔ منہ بولے رشتوں کی ویسے تو کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اگر کوئی نبھانا چاہے تو کافی دور تک نبھائے جا سکتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ منہ بولے رشتوں کو اہمیت کوئی بھی نہیں۔ کیونکہ رسولِ پاک نے حضرت زید بن حارث کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا، لیکن اللہ پاک نے قرآن میں واضح کر دیا کہ حضرت محمد کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔الاخیر۔ تو اگر ایک نبی کو اللہ کا یہ حکم ہے تو ہم تو اس نبی پاک کے ماننے والے ہیں، ہمارے لیے تو یہ حکم بہت واضح ہے کہ آپ جتنے بھی منہ بولے رشتے بنا لو، اسکی حیثیت کوئی نہیں۔ ہاں لڑکوں کی لڑکوں سے دوستی ہو سکتی ہے، لڑکیوں کی لڑکیوں سے دوستی۔ لیکن صنفِ مخالف سے اس طرح کے رشتے قائم کرنا صرف منہ سے ہی ہوتا ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیںہوتی۔ کوئی لاکھ کہے کہ آپ نے تو بھائی کہا تھا، بہن کہا تھا، بیٹا، بیٹی بنایا تھا۔ وہ آپس میں اسی طرح نامحرم ہی رہتے ہیں۔ یہی اللہ اور اسکے رسول کا حکم ہے۔ اور اس سے روگردانی کرنے والا گویا اللہ اور اسکے رسول کا انکاری ہے۔
نیٹ کی دنیا بھی ایک ایسی ہی دنیا ہے جہاں منہ بولے رشتے بنتے رہتے ہیں اور ان رشتوں کو وجہ سے جہاں اگر ایک طرف بے حیائی جنم لیتی ہے تو دوسری طرف کچھ رشتے بھی بنتے ہیں۔ بے حیائی تو اللہ معاف کرے، بہت دور تک جاتی ہے، اور اکثریت کو اگر گھر کی طرف سے سختی نہ ہو، آزادی میسر ہو، تو پھر اللہ ہی عزت و آبرو کی حفاظت کرے تو بچت ممکن ہو، ورنہ گھر کے گھر تباہ ہو جائیں۔اور دوسری طرف اسی نیٹ کی دنیا میں منہ بولے رشتے لاسلکی طور پر نبھائے بھی جاتے ہیں۔ کوئی بہن بنتی ہے توکوئی بھائی بن کر بھائی کا رشتے کی لاج رکھتا ہے۔ کوئی انکل بنتا ہے تو کوئی بھتیجی، بھتیجا بن کر انکل کو نخرے دکھاتا ہے۔ اگر ان میں اچھا انکل بھتیجے، بھتیجی کا رشتہ بن جائے توانکل کے دماغ کی دہی بنانے میں ان کو ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ گھر میں امی ابو تو اس طرح لفٹ نہیں کراتے جو لاسلکی انکل کراتے ہیں۔
اسی طرح منہ بولی بہنیں بھائیوں کے سر پر چڑھ کر ان سے مختلف معلومات لیتی رہتی ہیں۔ ان کو مختلف کاموں کے لیے تنگ کرتی رہتی ہیں جو کہ نیٹ سے ہی متعلق ہوتا ہے۔ اور لڑکیاں بے چاری اپنی سادگی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے لڑکے کو اپنا بھائی کہتی رہتی ہیں اور بھائی کے دل میں چور ہوتا ہے ، وہ لڑکی کو صرف لڑکی سمجھ کر اس کا کام کرتا ہے کہ شاید کبھی ہنس جائے۔ کیونکہ وہ جملہ اسکے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے کہ جو ہنسی تو وہ پھنسی۔ خیر یہ تو ایک بات ہو گئی۔ لیکن کچھ افراد پر اللہ کا کرم ہوتا ہے اور وہ بھائی بن کر ہی رہتے ہیں۔ ان کے دل میں بھی چور کی گرہ ضرور پڑتی ہوگی ، لیکن اپنے نفس پر قابو کرتے ہوئے وہ منہ بولی بہن کو بہن ہی سمجھتے ہیں۔ مختلف مواقع پر ان سے اسی طرح فرمائش کرتے ہیں جس طرح کوئی سگا بھائی اپنی سگی بہن سے فرمائش کرتا ہے۔ جیسے کھانے کی کسی ڈش کی فرمائش دھر دی کہ ہم تو تب مانیں گے جاب بہن ہمیں فلاں ڈش بنا کر بھیجے گی۔ اور ہم چٹخارہ لے کر کھائیں گے۔ پھر بتائیں گے کہ بہن کے ہاتھ میں زیادہ لذت ہے یا آنٹی کے ہاتھ میں۔ لذت جس کے ہاتھ میں بھی ہو، آپ جتنا بھی اپنے نفس پر قابو پائیں، لیکن پھر وہی بات کہ اللہ کا اور اسکے رسول پاک کا حکم افضل ہے۔
جو شروع میں ذکر کیا گیا تھا کنجوس لوگوں کا تو اس مندرجہ بالا گفتگومیں کنجوسی کی بات یہ ہے کہ جب یہ بھتیجیاں یا بہنیں کبھی انکل یا بھائی کی طرف سے کسی فرمائش کے چکر میں پڑتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنی سخی ہیں۔ ان کو بھی علم ہوتا ہے کہ وہ لاسلکی بھتیجیاں ہیں، بہنیں ہیں، اسلیے فرمائش کو پوری کرنے کے لیے حامی بھرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اسلیے وہ دھڑلے سے کہہ دیتی ہیں کہ جی بالکل انکل جی۔ جب آپ کہیں ، آپ کو سپیشل ڈش مل جائے گی۔ اور پھر دو دن کے لیے پردہ سکرین سے غائب ہو جاتی ہیں کہ انکل کو بھول جائے گا تو پھر السلام علیکم بھائی کی آواز لگائیں گی۔ لیکن یہ جو انکل ٹائپ کی چیزیں ہوتی ہیں نا، یہ نا تو خود کنجوس ہوتے ہیں اور نہ ایسی بھتیجی رکھتے ہیں جو کنجوس ہوں۔ یہ کھانے پینے کی چیزیں کا ذکر پڑھ کر قارئین کرام آپ کے منہ میں پانی آرہا ہوگا، لیکن مجبوری ہے کہ میں اس وقت ایک ایسی ہی مرحلے سے گزر رہا ہوں کہ دو عدد لاسلکی بھتیجیاں گزشتہ ماہ پیپر دے کر ماشاء اللہ پاس ہوئیں۔ ایک نے تو شاید اپنی کلاس کو ٹاپ کیا۔ اور دوسری بھتیجی نے بھی اچھے مارکس لیے۔ دونوں نے وعدہ کیا تھا کہ انکل کو مٹھائی کھلائیں گی۔ میں بھی خوش کہ چلو لاسلکی طور سہی، مٹھائی کوئی تو بھیجے گا، ورنہ مجھے مٹھائی کا کوئی نہیں پوچھتا کہ پوچھنے والا پھر پچھتاتا ہے کہ کیوں پوچھا۔ یہ پچھتاوا اسلیے ہوتا ہے کہ اپنا دو، تین رس گلوں، یا گلاب جامن سے جی نہیں بھرتا، جب تک ایک آدھ ڈبہ پورا نہ ہضم ہو جائے۔
اب ہوا یوں کہ ان دونوں نے حامی بھرلی تھی کہ مٹھائی کھلائیں گی۔ اب نتیجہ آیا اور انھوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ میں نے ان کا ریزلٹ تک نہیں پوچھا۔ تو میں نے کہا کہ یہ تو ان کا کام تھا کہ مٹھائی کا ڈبہ لے کر انکل کی خدمت میں حاضر ہوتیں کہ یہ انکل ہمارے پاس ہونے کی خوشی میں مٹھائی کا پانچ کلو کا ڈبہ حاضر ہے۔ الٹا انھوں نے شکایت کر ڈالی۔ کمال ہے ویسے۔ خیر میں نے ان کا گلہ ٹالا۔ اور مٹھائی مٹھائی کی رٹ لگائی۔ انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ لیکن انھیں طریقہ بتایا جائے کہ وہ کس طرح بھیجیں۔ میں نے کہا کہ میں تو کھانے والا بندہ ہوں، یہ ان کا دردِ سر ہے کہ وہ کیسے بھیجتی ہیں۔ ایک نے تو کہہ دیا کہ انکل اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں تو وہ ابھی ہمارے بھائی یعنی اپنے ابو کو کہہ کر بھجوا دیتی ہیں، میں اسے پتہ لکھوا دوں۔ اللہ اسے ہمیشہ خوش رکھے، آمین۔ جب کہ دوسری بھتیجی اس تحریر کے لکھنے تک ٹال رہی ہے۔ یعنی کنجوس۔اورایسی کنجوس کہ نیٹ پر بھی حامی نہیں بھر سکتی۔ آخر میں نے کیا کرلینا تھا۔ کیا واقعی میں نے مٹھائی کھا لینی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کیا کہ نیٹ کی دنیا کی بھتیجی سے حقیقت میں مٹھائی کھانا ناممکن حد تک مشکل کام ہے۔ اللہ اسے بھی خوش رکھے، چاہے ہمیں مٹھائی ملے یا نہ ملے۔
دوسری طرف ایک عدد منہ بولی بہن بھی ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ کھانا بہت اچھا پکاتی ہے، تو میں نے کہا کہ میں کیسے مان جائوں کہ وہ واقعی سچ کہہ رہی ہے۔ کہنے لگی کہ وہ جب بھی پکاتی تو ہر کھانے والا انگلیاں چاٹ کر رہ جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ ظاہرہے وہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ یہ انگلیوں پر کس قسم کا ذائقہ لگ گیا ہے، فوراً سے پہلے صاف کر لینا چاہیے۔ ناراض ہو گئی۔میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے۔ اگر واقعی سچ ہے تو پھر مجھے کھانا کھلانا پڑے گا۔اس نے جھٹ سے حامی بھر لی۔ کہنے لگی بھیا، آپ کو ضرور کھلائوں گی۔ آپ ہمارے گھر آئیں، امی ابو سے بھی ملیں، وہ بھی خوش ہوں گے۔ اور وہ اپنے ہاتھ سے پکائیں گی۔ پھر بتائیے گا کہ کھانا کیسا تھا۔ یعنی اس نے حاتم طائی کی سخاوت کو بھی مات دے دی۔ اب کوئی کنجوس ہو یا سخی۔ لیکن نیٹ کی دنیا کے یہ رشتے درحقیقت منہ بولے بھی صرف اس حد تک ہوتے ہیں جب تک وہ آمنے سامنے نہیں ہوجاتے۔ یہ دنیا ہوس کی دنیا ہے۔ مطلب کی دنیا ہے۔ یہاں اپنا اپنا نہیں ہوتا تو پرایا کیا اپنا ہو گا۔ ہر کوئی مطلب نکالنے کے چکر میں ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بات کہ لڑکی اور لڑکے کی آپس میں بات چیت ہو گئی۔ بے شک منہ بولا بھائی بہن کا رشتہ بن گیا۔ لیکن اسلام کے قوانین میں، اسلام کے اصولوں کے مطابق اصل رشتہ ماں جائی بہن بھائی کا ہی ہوتاہے۔ ہاں رضاعی بہن بھائی کا رشتہ بھی اصل کی طرح ہی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ سارے بہن بھائی کے رشتے بس نام کے ہوتے ہیں۔ جب کوئی بہن کسی منہ بولے بھائی پر اعتبار کرکے اس سے اکیلے میں ملنے جاتی ہے تو وہ کیا سوچ کر جاتی ہے کہ وہ اسکا سگا بھائی ہے۔ نہ کبھی نہیں۔یہ غلط فہمی دل سے نکال دینی چاہیے۔ نہ لاسلکی رشتے کبھی بنتے ہیں اور نہ ہی کبھی ان میں سچ ہوتا ہے۔ لاکھ قسمیں کھائی جائیں، لاکھ ضمانتیں دلوائی جائیں، لاکھ کوئی کسی کے صدق کی گواہی دے، جب اللہ اور اسکے رسول نے کہہ دیا کہ منہ بولے رشتے کی کوئی حیثیت نہیں، تو ہم کون ہوتیہیں ان رشتوں کو سچا کہنے والے۔
تحریر : ابن نیاز