اسلام آباد(ویب ڈیسک) معروف صحافی وجاہت سعید کا کہنا ہے کہ عمران خان کے بارے میں سنا تھا کہ نہ تو وہ خود چھٹی کرتے ہیں اور نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں اور سچ کی تلاش میں خود وزیراعظم ہاوس گیا تو مجھے وہاں لفٹ والا ملا۔جو کہ وہاں 20سالوں سے کام کر رہا ہے۔
میں نے اس ملازم سے سوال کیا کہ سچ سچ بتاؤ وزیراعظم کس وقت گھر آتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وزیراعظم ساڑھے نو بجے آتے ہیں۔عمران خان قریبا 12گھنٹے کام کرتے ہیں۔یہاں سے ناشتہ کر کے جاتے ہیں پھر دوپہر کا کھانا نہیں کھاتے۔اس کے بعد رات کا کھانا آ کر کھاتے ہیں۔اس نے مزید بتایا کہ مجھے یہاں 21 سال ہو گئے ہیں میں نے اتنا محنتی وزیراعظم نہیں دیکھا۔خیال رہے اس سے قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل محنت اور ملک و قوم کی خدمت کی بات کیا کرتے تھے۔عام انتخابات 2018ء میں شاندار کامیابی کے بعد جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی اور عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لیا ، تب سے ہی نئی حکومت کے لیے چیلنجز کا ایک دور شروع ہو گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کئی ایسے فیصلے کیے جن پر ان کو پذیرائی ملی جبکہ کئی ایسے فیصلے بھی کیے جن پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن عمران خان کے بارے میں ایک بات جو واقعی قابل تعریف ہے وہ یہ کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد ایک دن کے لیے بھی کام سے چھُٹی نہیں لی۔
وزیراعظم عمران خان نے 17 اگست کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا۔ہ سوشل میڈیا پر اکثر وزیراعظم عمران خان کی تصاویر گردش کرتی ہیں جس میں انہیں اتوار کے روز بھی صبح کی سیر کے بعد ٹریک سوٹ میں ملبوسوزیراعظم آفس میں دیکھا گیا۔ عمران خان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب سےعمران خان نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا ہے وہ دن رات ملک و قوم کی ترقی اور ملکی حالات سُدھارنے کی فکر میں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اتوار کے روز بھی کام سے گریز نہیں کرتے ۔ جبکہ دوسری جانب قومی اسمبلی کا چوتھا اجلاس شروع ہورہا ہے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری تنائو بڑھنے کا کچھ زیادہ ہی احتمال ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نیب کی حراست میں ہیں تاہم نیب انہیں اسپیکر اسد قیصر کے حکم پر ایوان میں لانےکا پابند ہے، قانو ن سازی کے حوالے سے قومی اسمبلی سے فی الوقت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ موجودہ حکومت کے خلاف جس طورپر لنگر لنگوٹ کس کر نکلے ہیں لگتا یہی ہے کہ وہ کوئی نتیجہ حاصل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ نظر بظاہر پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نہ صرف کل جماعتی کانفرنس کی تائید پر آمادہ ہیں لیکن وہ آصف زرداری سے بھی ہتھ جوڑی کے لئے تیار ہیں وہ مولانا سے اس امر کی ضمانت بھی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں کہ میثاق جمہوریت کے معاہدے کے فوری بعد ابوظہبی کے مشرف پیلس میں سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف سے خفیہ مذاکرات کا ڈول ڈالنے والی پیپلزپارٹی کی قیادت جو پے در پے انہیں چرکے لگاتی آئی ہے کم از کم اس مرتبہ کے لئے اس سے باز رہے۔ نواز شریف کسی طورپر تاثر نہیں دیناچاہتے کہ وہ حزب اختلاف میں شامل قوتوں کے اتحاد میں مزاحم ہیں ان کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو پوری دنیا کے خزانے بھی مل جائیں تو بھی عوام کو ان سے کوئی راحت نہیں مل سکتی۔