لیجیے ، شمالی عراق میں ’’آزاد کُردستان‘‘ کے لیے ریفرنڈم کامیاب ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ 75فیصد سے زائد کُردوں نے اپنے علیحدہ وطن کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔ عراق نے اِسے مسترد کرتے ہُوئے سخت مخالفت کی ہے لیکن کمزور اور نحیف عراق کی بھلا کون سُنتا، مانتا ہے؟ ایران، اُردن،شام اور ترکی نے بھی اِسے ماننے اور تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
لبنانی ’’حزب اللہ‘‘ قیادت کا استرداد بھی سامنے آگیا ہے۔اسرائیلی صہیونی وزیراعظم، نیتن یاہو، نے البتہ فوری طور پر ’’آزاد کردستان‘‘ میں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا عندیہ دے دیا ہے۔صہیونیوں کی طرف سے یہ اعلان خاصا معنی خیز ہے۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ یکم اکتوبر 2017ء کو سپین کے شمال مشرقی علاقے ’’کاتا لونیا‘‘ میں ایک کامیاب ریفرنڈم کے تحت علیحدہ وطن کا مطالبہ کردیا گیا ہے لیکن اسرائیل نے وہاں اپنا سفارتخانہ کھولنے کا اعلان ابھی تک نہیں کیا ہے۔
عراق نے آزاد کردستان کو کس نظر سے دیکھا ہے، اِس کا اندازہ 20 اکتوبر 2017ء کو مقامِ ’’کرکوک‘‘ پر عراقی اور کُرد افواج کے درمیان ہونے والے خونی تصادم سے لگایا جا سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آزاد کردستان کی آبیاری کرنے والوں نے ملّتِ اسلامیہ اور عالمِ عرب کے عین قلب میں ایک نیا کانٹا چبھو دیا ہے۔
اسلام اور عالمِ اسلام کے خلاف امریکی و مغربی ممالک کی سازشیں ہمیشہ سے جاری ہیں۔ اِن سازشوں نے کئی اسلامی ممالک کی اکائی اور یکجہتی کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ پاکستان بھی اِنہی سازشوں کا شکار ہو کر دو لخت ہُوا تھا۔ اِن مغربی قوتوں نے پاکستان کے خلاف بھارت کو بطورہتھیار استعمال کیا۔پچھلے دوسو سال سے اسلام اور عالمِ اسلام کے خلاف امریکی و مغربی استعمار کی جنگ جاری ہے۔ مغربی استعمار کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی غداریوں کے سبب ہی( جنگِ عظیم اوّل کے آس پاس)سلطنتِ عثمانیہ کو توڑاگیا تھا۔
سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے ہونے پر تو ہمارے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے بھی آٹھ آٹھ آنسو بہائے تھے۔ خلافتِ عثمانیہ بکھری تو اس کے بطن سے کئی ایسے ممالک ظہور میں آئے جو آج عالمِ اسلام کا حصہ ہیں۔ کئی اسلامی ممالک تو اتنے چھوٹے تھے کہ انھیں بجا طور پر ’’ماچس کی ڈبیا‘‘ کے مترادف قرار دیا گیالیکن یہ ’’ماچس کی ڈبیا‘‘ مغربی استعمار کے مفادات میں تھی کہ انھیں اور ان کے حکمرانوں کو ہینڈل کرنا آسان تر بھی تھا اور انھیں زیرِ اثر رکھنا بھی۔
اہلِ مغرب کی یہ مسلمان دشمنی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔پچھلے دو تین عشروں کے دوران اِس استعمار نے بڑی ہی وحشت و بربریت سے عراق، لیبیا، شام، سوڈان اور افغانستان کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے۔یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ ’’داعش‘‘ ایسی وحشی طاقت، جسے تخلیق بھی مغربیوں نے کیا ہے، کے تازہ مسلکی و مذہبی جبر اور مظالم نے بھی ’’آزاد کردستان‘‘ کی راہ ہموار کی ہے۔کرنل قذافی کے قتل، صدر صدام حسین کی پھانسی، صدر بشار الاسد کی عالمی تنہائی اور صدر طیبب اردوان کے سخت رویوں نے بھی ’’آزاد کردستان‘‘ کی منزل قریب کر دی ہے۔
اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدام حسین کے دَور ہی میں ’’آزاد کردستان‘‘ کی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں جب عالمی سطح پر اہلِ مغرب نے یہ شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ صدر صدام حسین نے کُردوں پر کیمیاوی بم گرائے ہیں(اسے مبینہ طور پر ’’آپریشن انفال‘‘ کا نام دیا گیا تھا) مغربی استعمار کے اشارے پر ’’ایمنسٹی انٹر نیشنل‘‘ ایسے اداروں نے صدام اور عراق کے خلاف بہت واویلا کیا۔ نتیجتاً امریکی اور مغربی حکمرانوں نے کُردوں تک صدام کی رسائی ناممکن بنا دی۔ امریکی چھتری تلے شمالی عراق میں KRG(کردستان ریجنل گورنمنٹ) بنا دی گئی۔یہ گویا ’’آزاد کردستان‘‘ کی طرف پہلا باقاعدہ قدم تھا۔
کُرد پانچ ممالک کے سرحدی اور پہاڑی علاقوں میں پھیلے ہُوئے ہیں:ترکی کے جنوب مشرق میں، شام کے شمال مشرق میں، عراق کے عین شمال میں،ایران کے مغربی علاقے میں اور آرمینیا کے جنوب مغرب میں۔ ان کی کُل آبادی ساڑھے تین اور چار کروڑ کے درمیان ہے۔ آبادی کے اعتبار سے سب سے زیادہ کُرد ترکی میں رہائش پذیر ہیں، تقریباً اٹھارہ ملین کی تعداد میں۔ عراق میں سات آٹھ ملین۔ ایران میں دو ملین اور شام میں چھ ملین۔دو ملین کے قریب آرمینیا میں اور دوملین ہی مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔
ترکی میں چونکہ سب سے زیادہ کُرد آباد ہیں، اس لیے ترکی ہی کی طرف سے ’’آزاد کردستان‘‘ کے بارے کروائے جانے والے ریفرنڈم کے خلاف سخت ردِ عمل آیا ہے۔ ترک صدر جناب طیب اردوان نے انتہائی سخت الفاظ میں آزاد کردستان کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کو دھمکی دی ہے۔ ایرانی، شامی اور عراقی حکمرانوں نے بھی مغربیوں کی اِس تازہ واردات کے خلاف سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
عراقی وزیر اعظم جناب حیدر علی العبادی نے تو کُردوں کے مرکزی رہنما، مسعود برزانی، کو حکم دیا ہے کہ وہ جن عراقی ہوائی اڈوں پر قابض ہیں، انھیں فی الفور خالی کر دیا جائے، بصورتِ دیگر جنگ ہو سکتی ہے۔ امریکی و مغربی استعماری قوتوں کا مگر منصوبہ یہ ہے کہ مستقبل میں ایرانی، ترک،شامی اور آرمینیائی کُردوں کو اکٹھا کرکے عراق کے شمالی کردستان میں ضم کرکے ایک ’’عظیم کردستان‘‘ بنایا جائے گا تاکہ پانچوں ممالک پر ضرب لگائی جا سکے۔
عراق، جسے پہلے امریکا نے تباہ کیا اور پھر ’’داعش‘‘ کے غنڈوں نے، وہ بھلا اب نئے ’’آزاد کردستان‘‘ کو کیسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکتا ہے؟پاکستان بھی کسی اسلوب میں ’’آزاد کردستان‘‘ کی حمایت نہیں کر سکتا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد ملتی ہے اور ترکی اُس کا گہرا دوست۔ایسے میں’’آزاد کردستان‘‘ کو تسلیم کرنے یا نئے ریفرنڈم کی حمائیت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پاکستان کو بلوچستان میں جن شورشوں اور عالمی سازشوں کا سامنا ہے، اِس پس منظر میں تو ’’آزاد کردستان‘‘ یا اس بارے نئے ریفرنڈم کی طرف آنکھ بھی اُٹھا کر دیکھنے کی پاکستان غلطی نہیں کر سکتا۔ کُردوں کے تمام لیڈر مگر نہ تو پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں نہ وہ عراقی و ترکی وشامی اور ایرانی حکمرانوں کی دھمکیاں قبولنے پر تیار۔عبداللہ اوچلان، جو ’’آزاد کردستان‘‘ کے حصول کے لیے مدتوں ترک جیلوں کے اسیر رہے ہیں، بدستور بضد ہیں۔
مسعود برزانی، جنہوں نے تازہ ریفرنڈم کے انعقاد کو ممکن بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، بیک وقت عراق اور ترکی کو ابھی شائستگی سے کہہ رہے ہیں کہ مناسب یہی ہے کہ وہ کُردوں پر اپنے دروازے بند نہ کریں۔ PUKیعنی’’ پیٹریاٹک یونین آف کردستان‘‘ کے سربراہ (عمر شیخ موس) بھی ریفرنڈم کو ’’منزل‘‘ کی جانب پہلا کامیاب قدم کہہ رہے ہیں۔
لیلیٰ زانہ اور عدیلہ خانم ایسی کُرد خواتین لیڈرز کی شعلہ بیانیاں بھی کُردوں کی تحریکِ آزادی کو مہمیز دے رہی ہیں۔ کُرد(جن کی اکثریت عربی اور کُرد زبانیں سورانی و گورانی و کمرنجی لہجے میں بولنے کو ترجیح دیتے ہیں) جس جوش و جذبے کے ساتھ ریفرنڈم میں شریک ہُوئے ہیں، کو اب ’’آزاد کردستان‘‘ کے مطالبے سے پیچھے ہٹانا بھی اتنا آسان نہیں رہا۔شمالی عراق کے ’’آزاد کردستان‘‘ کے باشندے اکثریتی طور پر سُنّی مسلمان ہیں لیکن وہ شدت پسند ہیں نہ بنیاد پرست ملّاؤں کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے۔ وہ کھُلے دل سے اعلان کر رہے ہیں کہ ’’ہم آزاد کردستان میں اپنے علوی، شیعہ اور یزیدی کُرد بھائیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رہیں گے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ علویوں اور یزیدیوں پر ’’داعش ‘‘نے جتنے مظالم ڈھائے ہیں اور یزیدیوں کی معصوم بیٹیوں کو اغوا کرکے جس وحشت سے اپنی لونڈیاں بنایا اور انھیں سرِ بازار فروخت کیا ہے، اِس نے اُن کے دلوں پر گہرے گھاؤ لگائے ہیں؛ چنانچہ اُن کا ’’آزاد کردستان‘‘ کے حق میں اپنی آوازیں اور اپنے بازو بلند کرنا فطری ہے۔در حقیقت ’’داعش‘‘ کی فرقہ پردازیوں کی آگ نے بھی کُردوں کے دلوںمیںالگ وطن کی آتشِ شوق کو بھڑکایا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کُردستانی علاقوں میں پائے جانے والے تیل کے وسیع ذخائر پر امریکیوں اور مغربیوں کی للچائی نظریں جمی ہیں۔