کراچی (ویب ڈیسک) میں رابی پیر زادہ کو اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ یا کہیں کہ کبھی ان کو باقاعدہ فالو نہیں کیا تھا۔ کہ وہ کون ہے مگر ان دو تین دنوں میں تو اس کو قریب سے جان چکا ہوں۔ دو تین دن سے چرچا ہی سن رکھا تھا دوستوں سے۔
نامور صحافی مظفر نقوی اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یار تو نے رابی کی ویڈیو دیکھی یا اسکا لنک ہے۔میرے نزدیک رابی کی ویڈیو لیک ہونا رابی کا قصور نہیں۔ نا ہی یہ اس کی کوئی غیر اخلاقی حرکت ہے۔ ہر انسان اپنے اعضا کی ویڈیو بنا کے اسے دیکھتا رہتا ہے۔ آپ میں یا کوئی اور جس کے پاس بھی اچھی ریزولیشن کیمرے ہیں۔ وہ یہ کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم سلیبرٹی نہیں یا ہمارے جسم اتنے ترتیب سے تراشے ہوئے نہیں۔قصور اس غلیظ انسان کا کردار ہے۔ جو اس نے نبھایا اور بقول رابی کے ایک آڈیو پیغام میں جو کہ جلیلہ حیدر نے پوسٹ کیا ہے”ہر شخص کے ذاتی نوعیت کے ویڈیوز ہوتے ہے اس پر کسی کو جج نہیں کیا جاسکتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ ویڈیوز اس نے اپنے شوہر طارق شاہ کے لئے بنائی تھی جب وہ ملک سے باہر تھے چار مہینے اور یہ ویڈیو ان کے پاس بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کے ذاتی ویڈیوز کو شیر کرنا غیر اخلاقی عمل ہے”۔مگر سوشل میڈیا پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کسی کے نزدیک یہ ایک سٹار کی سستی شہرت حاصل کرنے کا ارادہ ہو سکتا ہے۔ اور کسی کے نزدیک یہ کسی غلیظ گھٹیا مرد کا کردار ہے جو ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے کہ وہ کسی نا کسی عورت کو قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔یہ عورت مرد کا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ اس سوچ کا ہے اگر میری/ میرا نہیں تو کسی کا اور کا بھی نہیں۔ میں تمہیں بدنام کر دوں گا۔ ہمیں سماج کی اس سوچ سے نکلنا ہو گا۔باقی رہی بات تو رابی کو بھی سمجھنا ہو گا کہ آج لوگ اگر ان کا دفاع کر رہے تو میرا جسم میری مرضی والے نعرے کے تحت کر رہے ہیں جس پہ وہ معترض رہیں۔