پاکستان میں انصاف کا حصول ایک مسئلہ ہے۔ نظام انصاف میں بہتری کے لیے خود اعلیٰ عدلیہ کے ذمے دار بھی کوشاں ہیں۔ مقدمات کی طوالت ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اسی طرح بغیر کارروائی کے سماعت کا ملتوی ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ بار اور بنچ کے تعلقات ہیں۔ بار بنچ کے تعلقات میں بڑھتی کشیدگی ہمارے نظام انصاف پر خطرہ کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ میں بار اور بنچ کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ گزشتہ کئی سال سے ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے بار اور بنچ کے تعلقات پر سنجیدہ سوالیہ نشان پیدا کیے ہیں۔ شاید ہم بھول جاتے ہیں لیکن سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف کے دور میں بھی لاہور کے سیشن جج کے تبادلہ کو لے کر بار اور بنچ کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔اس بارے میں بھی کوئی رائے نہیں کہ بار اور بنچ جب تک ہم قدم نہیں ہو نگے، نظام انصاف میں اصلاحات ممکن نہیں۔ ان میں نہ صرف سوچ کی ہم آہنگی ناگزیر ہے بلکہ دونوں کا ایک پیج پر ہونا بھی لازمی ہے۔ دونوں کے بغیر موجودہ نظام انصاف کا چلنا ممکن نہیں۔ ان دونوں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک اور عام آدمی کی بہتری کے لیے اکٹھے چلنے کا حل نکالیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام بڑی بارز اور بار کونسل کے ذمے داران عدلیہ کے بڑوں کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور نظام انصاف کو فعال بنانے اور بار بنچ کے تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹیں د ور کرنے کے لیے ایک چارٹر آف جیوڈیشری سائن کریں۔ یہ چارٹر وقت کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنی ذ اتی انا کو بالا ئے طاق رکھ کر چلنے کی نئی اور جدید راہیں تلاش کرنا ہو نگی جن سے نہ صرف موجودہ مسائل کا حل بھی ممکن ہو سکے بلکہ مستقبل کے مسائل کا حل بھی موجود ہو۔
یہ درست ہے کہ بار اور بنچ اس وقت حلیف کے بجائے حریف نظر آ رہے ہیں۔ ایک واقعہ نے سارا ماحول خراب کر دیا ہے۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔کئی چھوٹے واقعات نے اس واقعہ کو جنم دیا ہے۔ دونوں اطراف کے پاس گلے شکوؤں کی ایک لمبی کہانی ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نکلنے کے دلائل دونوں طرف مضبوط نظر آتے ہیں۔ جس فریق کو بھی سن لیا جائے وہی سچا نظر آتا ہے۔ دونوں طرف کی اپنی کہانی ہے۔اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدلیہ کے وقار پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ اگر عدلیہ کا وقار نہیں ہو گا تو اس کے فیصلوں کا وقار نہیں ہو گا۔ عدلیہ سے جو بھی شکایات ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے وقار پر اتفاق ہے۔ عدلیہ کے وقار کے بغیر عدلیہ کی رٹ ممکن نہیں۔
یہ عدلیہ کا وقار ہی ہے کہ عدلیہ کا ہر فیصلہ سر جھکا کر سنا جاتا ہے۔ اور سر جھکا کر ہی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عدلیہ کا ہر فیصلہ درست اور صحیح ہو تا ہے۔ غلط فیصلے بھی ہوجاتے ہیں۔ فیصلوں سے اختلاف بھی ہو تا ہے۔ لیکن ان کو ماننے میں ہی عدلیہ کا وقار ہے۔ عدالت میں جج کی آمد پر کھڑے ہونا بھی عدلیہ کے وقار کا اقرار ہے۔ جج صاحب کو مائی لارڈ اور عالی جانب کہنا کسی جج کا نہیں بلکہ عدلیہ کا وقار ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عدلیہ کے وقار کا یہ بھی تقاضہ ہے جج نہیں جج کا فیصلہ بولتا ہے۔ ججز کے ریمارکس دینے کا جو رواج پروان چڑھ گیا ہے۔ وہ عدلیہ کے وقار میں اضافہ کا باعث نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو از خود جج کے ریمارکس کی اشاعت اور میڈیا میں تشہیر پر پابندی لگانی چاہیے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گاکہ ان ریمارکس کی کوئی جیوڈیشل حیثیت نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں دوسرا بڑا مسئلہ عدالت کے وقار کا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران وکیل اور جج کے درمیان بحث تنازعہ کا باعث بن جاتی ہے۔ حالانکہ انصاف کے لیے یہ ضروری ہے۔ جب تک جج اور وکیل کیس پر بات نہیں کریں گے کیس چل ہی نہیں سکتا۔ لیکن پھر بھی اس ضمن میں نئے رولز آف دی گیم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بدلتے حالات نے نئے مسائل پیدا کیے ہیں۔ اور نئے مسائل کے نئے حل تلاش کرنا ضروری ہیں۔ ججز کا موقف ہے کہ وکلا ان سے عدالت میں بدتمیزی کرتے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ جب کہ دوسری طرف بھی ایک موقف ہے۔
اس ضمن میں نئے چارٹر آف جیوڈیشری میں ایک سائل کی طرف سے ایک وکیل کے پیش ہونے کی شرط طے ہونی چاہیے۔ اور یہ بات بھی طے ہونی چاہیے جب ایک سائل کی طرف سے ایک وکیل ہی پیش ہو سکے گا تو وہ محترم وکیل صاحب بھی عدالت میں اپنے ساتھ معاونت کے لیے صرف ایک جونیئر وکیل ہی ساتھ لے جاسکیں گے۔ بیس بیس ہی نہیں پچاس پچاس وکلا کا ساتھ پیش ہونا بھی کسی طرح جائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کٹھ پریکٹس کا رواج ختم کرنا ہو گا۔ اس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ملتان کا واقعہ الگ مثال ہے۔ اگر کوئی بھی وکیل زیادہ وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہو تو اس کا اس کیس میں وکا لت نامہ ختم ہونا چاہیے۔
محترم وکلا صاحبان نے مقدمات اپنے دلائل سے جیتنے ہیں کوئی وکلا کی تعداد کا رعب جما کر نہیں جیتنے۔ اس طرح امیر سائل جتنے مرضی چاہے وکیل اکٹھے کر لیتا ہے اور غریب کے لیے تو ایک وکیل لانا بھی مشکل ہے۔ اس ضمن میں بار اور بنچ دونوں کو فراخدلی کا مظاہرہ کر کے نئے رولز آف دی گیم طے کرنے چاہئیں۔ تب ہی مسائل حل ہو نگے۔
ویسے تو لیگل پریکٹشنرز ایکٹ موجود ہے۔ اور یہ ایک جامع اور مکمل قانون ہے۔ جس میں اگر کسی بھی وکیل پر بھی کسی بھی قسم کی پیشہ وارانہ کوتاہی کا الزام ہو تو اسے سزا دینے کا طریقہ کار موجود ہے۔ اور اس وقت بار اور بنچ کے درمیان تنازعہ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی وکیل کسی جج کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے تو اس کا کیسے احتساب کیا جائے۔
وکلا تنظیموں کا موقف ہے کہ صرف بار کونسل کو وکیل کے احتساب کا اختیار ہے۔ جب کہ عدلیہ ایسے وکیل کو خودسزا دینا چاہتی ہے۔ اس حوالہ سے دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ لیکن کیا صرف اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ نہیں اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھے بیٹھنا ہو گا تا کہ ایک قابل قبول اور قابل عمل حل تلاش کیا جا سکے۔
مجھے افسوس ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے اس ساری صورتحال میں ایک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اور وہ ان نئے مسائل کے لیے کسی نئی قانون سازی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں ایک نئے چارٹر آف جیوڈیشری کی ضرورت اور اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے پہلے مرحلہ میں بار اور بنچ کو مل کر ایک نئے چارٹر آف جیو ڈیشری کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے اور عام آدمی کی آواز ہے۔