میں اس موضوع پر قلم اٹھانے سے گریزاں تھا، مگر اب ایک طوفان بد تمیزی برپا ہے، سوشل میڈیا تو شتر بے مہار تھا ہی، پرنٹ ا ور الیکٹرانک میڈیا بھی کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نظر نہیں آتا۔ امریکہ میں سی آئی اے، اسرائیل میںموساد، برطانیہ میں ایم آئی فائیو اور بھارت میں را کے خلاف ان ملکوں کا میڈیا زبان نہیںکھولتا، ہمارا میڈیا البتہ اظہار رائے کی آزادی کے خوب مزے اڑا رہا ہے۔
آئی ا یس آئی کے نئے سربراہ جنرل نوید مختار بنے، تو زبانیں دراز ہوتی چلی گئیں اور قلم کے گھوڑے بگٹٹ دوڑنے لگے۔
امریکہ میں ٹرمپ کس کو کہاںلگا رہا ہے، اس پر ہمارا میڈیا کوئی تبصرہ نہیں کرتا، کیوںنہیں کرتا ، اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔
ایک زمانے میں جنرل ٹکا خان پنجاب کے گورنر بنے، انہوں نے اپنے سگے بیٹے کو اے ڈی سی بنا لیا۔
وزیراعظم پاکستان آئینی طور پر کلی آزاد ہیں کہ جس کو مرضی آئی ایس آئی کا سربراہ بناتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک چہیتے ریٹائرڈ جنرل کلو کو اس عہدے پر بٹھا دیا تھا۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ اس عہدے کے لئیے وزیرااعظم کے پاس کن جرنیلوں کی فہرست پہنچی یا نہیں پہنچی، بہر حال انہوںنے کراچی کے سابق کور کمانڈر جنرل نوید مختار کو اس عہدے پر فائز کرنا مناسب خیال کیا۔ اس سے اچھا اور بہتر فیصلہ ہو نہیں سکتا تھا۔
اس تقرر کو خاندانی حوالوں کی نظر سے دیکھا گیا۔ جنرل نوید مختار رحیم یار خان کے چودھری منیر کی اکلوتی بڑی بہن کی بیٹی سے بیاہے ہوئے ہیں۔ اور یہ رشتہ کئی برس پہلے ہو چکا تھا۔ اب انہی چودھری منیر کے ایک صاحبزادے کی شادی وزیراعظم کی بیٹی مریم کی بیٹی سے ہو گئی ہے۔ گویا دو خاندانوں میں کڑم چاری کا رشتہ بن گیا۔ مگر یار لوگوںنے نکتہ یہ نکالا کہ آئی ایس آئی وزیر اعظم کی باندی بن گئی ہے۔
نکتہ آفرینی میں ہماری قوم ماہر ہے ، خاص طور پر جگت بازی میں، ٹی وی پر بھی جگت بازی کے شو سب سے زیادہ ریٹنگ لیتے ہیں۔ وہ تھیٹر جہاں بوجوہ کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، اب یہ چھوٹی سکرین پر مقبول عام ہو گئے۔ بس ایک کسر ہے کہ ان میں بھونڈے رقص کا ٹوٹا نہیں ڈالا جا سکا، باقی پھبتیاں اور سب کچھ وہی چل رہا ہے۔
چودھری منیر ایک سیلف میڈ انسان ہیں۔ ان کے کاروبار میں اتار چڑھاﺅ آتا رہا، میں انیس سو اسی سے اس کا شاہد ہوں، ابوظہبی کے حکمران خاندان سے ان کے مراسم استوار ہوئے، انہوںنے ضرور ان کا فائدہ اٹھایا مگر جو فوائد انہوں نے پاکستان کی جھولی میں ڈالے، وہ ان گنت ہیں۔حدو شمار سے باہر۔ شریف خاندان بھی سیلف میڈ ہے، ایک فونڈری سے صنعتی اور کاروباری امپائر کھڑی کرناجان جوکھوں کا کام ہے، ان سے بھی میرے تعلقات انیس سو چوراسی سے ہیں مگر یہ ذاتی نہیں پیشہ ورانہ رہیں۔ ریڈیو پاکستان کے ساتھ ایک چھوٹا سا دفتر جہاں ان سے ابتدائی ملاقاتیں ہوئیں، اب جبکہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک محلات کے مالک ہیں تو میرا وہاں کبھی جانا نہیں ہوا۔جانا بنتا بھی نہ تھا۔ ماڈل ٹاﺅن میں بریک لگ گئی۔
پییلز پارٹی کا نواز شریف پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ جنرل ضیا، جنرل جیلانی اور بریگیڈئر عبدالقیوم نے ان کی سرپرستی کی۔ ضرور کی مگر کیا فیلڈ مارشل ایوب خاں نے بھٹو کی سرپرستی میںکوئی کمی چھوڑی، بالکل نہیں۔ بھٹو تو فیلڈ مارشل کو ڈیڈی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ حکمران کنونشن لیگ کے لئے ڈی سی کو ضلعی سربراہ بنانے کی تجویز دے ڈالی، پوری دنیا میں اور تاریخ عالم میں بھٹوواحدسویلین ہیںجو چیف مارشل لایڈمنسٹریٹر بن کر اقتدار میں آئے۔ یہ بھی نہ بھولیں کہ بھٹو نے اپنے محسن جنرل گل حسن کو ہٹا کر جس جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف بنایا، وہ ریٹائر ہو کر پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور پنجاب کے لاٹ صاحب مقرر ہوئے۔ انہی ٹکا خاں نے مشرقی پاکستان پر فوجی یلغار کی جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوا اور بھٹو کو نئے پاکستان کا اقتدار نصیب ہوا۔
فوج کی سرپرستی کا کھرا کہاں کہاں تلاش کریں گے۔
پیپلز پارٹی کی فوج سے لڑائی تب ہوئی جب بھٹو کو پھانسی ہوئی مگر بھٹو کو فوج نے تو نہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کروائے۔
اب رہا آئی ایس آئی کا مسئلہ۔ میں خود اس ادارے کے کسی اہلکار کے ہاتھوں ستایا ہوا ہوں۔مگر میرا ادارے کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں۔
نوید مختار کے تقرر پر چین بجبیں ہونےوالے دراصل آئی ا یس آئی کو ٹارگٹ کرر ہے ہیں۔ یہ ادارہ ہر کسی کی آنکھ کو کھلتا ہے، بھارت کو بھی، افغانستان کو بھی، امریکہ کو بھی ا ور یورپ کو بھی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ا س ادارے نے اپنی حیثیت منوائی ہے اور جو جتنا بڑا ہو گا،اسی قدر اس کی مخالفت بھی ہو گی، حقیقت یہ ہے کہ پڑوس بھارت میں مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے کے لئے آئی ایس آئی کا نام لیتی ہیں۔ یہ ادارہ ہر بھارتی کے اعصاب پر سوار ہے، بھارت میں کسی کو چھینک بھی آجائے تو آنکھیں بند کرکے اس ادارے کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے، باقی دنیا پر بھی آئی ا یس آئی کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، اس لئے کہ یہ ادارہ بنیادی طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا معمار ہے۔ یہ پاکستان کی لئے آنکھ ، کان اورناک کی بھی حیثیت رکھتا ہے، ملک دشمنوں کو چت کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ہمارے ہاںا س ادارے کی مخالفت میں وہ عناصر پیش پیش ہیں جن کی قیمت یا تو ایک بوتل ہے، یا چند ڈالر۔ قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ ہماری قوم میںمیر جعفروں اور میر صادقوں کی کمی نہیں اور وہ طبقہ جس نے سوسال تک انگریز کے کتے نہلائے اور صلے میں خان بہادر بنے، جاگیریں پائیں، نواب کہلائے، سر کے خطابات سے نوازے گئے، ان کی وفا داریاں پاکستان کے ساتھ استوار نہیں ہو سکیں، قائداعظم نے انہیں کھوٹے سکے قرار دیا تھا۔ یہ کھوٹے سکے ڈنگ مارنے میں تیز ہیں، جہاں کہیں اور جب کبھی ان کے ناجائز مفاد پر زد پڑتی ہے، یہ بیک آواز کائیں کائیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں رشتے ناطوں کے طعنے دینے والے خود رشتوں کا کیا لحاظ کرتے ہیں، باپ پیپلز پارٹی میں ہے، بیٹا مسلم لیگ ن میں ہے اور بہو تحریک انصاف میںاور بی اماں جماعت ا سلامی میں۔ میں ذاتیات پر حملے کا قائل نہیںمگر اسد عمر اور زبیر عمر سے تو کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری وفاداری اصل میں کس کے ساتھ ہے۔اور یہ جوکل مشرف کے ساتھ تھے، آج نون کے ساتھ یا پیپلز پارٹی کے ساتھ، ان کا دین ایمان کیا ہے۔
آئی ایس آئی کی پہلی اور آخری ترجیح پاکستان ہے، اسی کا مفاد اسے عزیز از جاں ہے۔یہ تو بات کرتے ہیں کہ جنرل نوید مختار کے آنے سے آئی ایس آئی فلاں کی آلہ کار بن گئی، وہ خاطر جمع رکھیں کہ جنرل نوید مختار اپنے سگے باپ اور میرے قابل قدر دوست بریگیڈیئر مختار کے سامنے بھی اپنے ا دارے کے بارے میں لب کشائی نہیں کریں گے مگر جی ہاں، وہ وزیر اعظم کے ماتحت ہیں اور ان کو رپور ٹ کرنے کے پابند، ہر آئی ا یس آئی چیف کی طرح وہ بھی ایس او پی کی پابندی کرنے کے پابند ہیں۔
مگر ایک بات ضرور ذہن نشین کر لیجئے کہ کراچی میں توجنرل نوید مختار نے صرف ایک شہر کوپاک صاف کیا تھا، اب وہ پورے ملک کی صفائی ستھرائی کر کے دم لیں گے۔ کون سوچتا تھا کہ کراچی میں آدھی رات کو کہیں آئس کریم کھانے کے لئے نکلا جا سکتا تھا، کون سوچتا تھا کہ کراچی میں بہو بیٹی گھر سے نکلے گی توو اپس بھی آ پائے گی یا نہیں ، کون سوچتا تھا کہ وہ جو حق حلا ل کی کماتا ہے، ا س کا بڑا حصہ اسے بھتہ خوروں کی نذر نہیں کرنا پڑے گا، مگر نوید مختار نے یہ سب معجزے کر دکھائے۔ قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیںا ور لوگ ان سے پورے ملک میں قیام امن کے خواستگار ہیں۔