بنگلا دیش اور امریکا کے ڈاکٹروں نے اسہال اور ڈائریا جیسے امراض سے بچوں میں ہونے والی پانی کی کمی (ڈی ہائیڈریشن) کا پتا لگانے والا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے۔ اسے ڈھاکا (یعنی ڈی ہائیڈریشن اسیس کڈز ایکیوریٹلی) ڈھاکہ کا نام دیا گیا ہے جس کی تفصیل بین الاقوامی طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہوئی ہے۔ اسے تجرباتی طور پر 496 ایسے بچوں پر آزمایا گیا جن کی عمر 5 سال سے کم تھی ۔ رپورٹ کے مطابق یہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) کے انٹی گریٹڈ مینجمنٹ آف چائلڈ ہُڈ النیس ( آئی ایم سی آئی) کے پیمانے سے بھی بہتر اور مؤثر ہے۔ اس کے بارے میں براؤن یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے ڈاکٹر اور نرس کو بچوں میں ڈائریا کو بہتر انداز میں سمجھنے اور ان کے انتظام میں بہت مدد مل سکے گی۔ اس کے لیے ماہرین نے ڈھاکا اسکور کا آئی ایم سی آئی کے ساتھ موازنہ کیا ہے اور اسے بہت درست پایا ہے۔ بنگلا دیش میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار ڈائریئل ڈیزیز ریسرچ نے سال 2014 میں ڈھاکا اسکور بنایا تھا جس میں بچے کی ظاہری علامات دیکھ کر اس میں پانی کی کمی کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس میں بچوں کے آنسو، سانس لینے کی کیفیت، ظاہری حالت اور پیٹ کی کھال چٹکی میں لے کر اسے دیکھنے جیسے اہم امور کو نوٹ کیا جاتا ہے۔ ڈھاکا اسکور درست اور حساس ہے جو پانی کی کمی، پانی کی کمی کا نہ ہونا اور پانی کی شدید کمی جیسی تینوں حالات کو نوٹ کرنے کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے بچے کا وزن بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تحقیق میں شامل بنگلا دیشی ماہرین کا کہنا ہےکہ خاص طور پر یہ طریقہ بچوں میں پانی کی شدید قلت کا فوری طور پر پتا لگاتا ہے، اسے استعمال کرنا آسان بھی ہے، اس میں بچے کی مختلف کیفیات کو دیکھتے ہوئے اسے مختلف نمبر دئیے جاتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے 2 منٹ لگتے ہیں۔ پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا بچہ بے چین ہے، پہلو بدل رہا ہے یا بے ہوش ہوگیا ہے۔ پھر سانس نوٹ کی جاتی ہے کہ یہ گہری ہے ، کم ہے یا نارمل۔ پیٹ کی کھال چٹکی سے کھینچنے کے بعد دوبارہ اپنی جگہ پر فوراً جاتی ہے ، آہستہ یا پھر بہت ہی آہستہ۔ کیا بچہ آنسو کم بہارہا ہے، نارمل ہے یا بہت زیادہ آنسو بہارہا ہے۔