پاکستان کی خا رجہ پالیسی بدل رہی ہے۔ یہ خارجہ پالیسی ہم اپنی کوشش سے نہیں بدل رہے بلکہ دنیا نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ پرانی پالیسی کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنا ممکن ہی نہیں رہا تھا۔ اسی لیے ہم بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ لیکن تبدیلی کیا ہے۔ ابھی تک لگتا ہے کہ حکومت کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ تبدیلی کیا ہے۔ کیا امریکا کے بعد اپنے سارے انڈے چین کی ٹوکری میں ڈال دینا ہی تبدیلی ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ اس طرح تو ہم نے ایک نوکری چھوڑ کر دوسری نوکری جوائن کر لی ہے۔ یہ تو کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف جا رہے ہیں۔
امریکا نے پاکستان میں ڈرون حملے شروع کر دیے ہیں ۔ تا دم تحریر ایک حملہ ہو چکا ہے۔ ہم امریکیوں پر سفارتی اور سفری پابندیاں لگا رہے ہیں۔ بڑے فخر سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ امریکی ہم سے ملنا چاہتے ہیں ہم نے ملنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکا کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہییں۔ یہ برابری بدتمیزی میں نہیں ہو سکتی۔ بہر حال ہم امریکا کے ساتھ تعلقات میں ہوش سے زیادہ جوش دکھا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ ہونے سے زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ بات چیت کے دروازے تو ہم بھارت سے بند نہیں کرتے تو امریکا سے کیوں بند کرنے ہیں۔ ہمیں میز پر اپنا موقف پیش کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔
دوسری طرف ہم ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میںبھی توازن نہیں رکھ رہے ہیں۔ میں ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن ہمیں سعودی عرب کی قیمت پر ایران سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ کے ایران جانے سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سعودی عرب گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی نہ جانے یہ تاثر کیوں پیدا ہوتا ہے کہ ہم سعودی عرب کی قیمت پر ایران سے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مجھے حال ہی میں حج انتظامات میں حکومت پاکستان کی جانب سے کوتاہی پر بہت دکھ ہوا ہے۔ ویسے تو یہ دکھ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔ ہم ماضی میں کئی بار ایسی کوتاہیوں کے مر تکب ہوچکے ہیں۔ میں ماضی پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ حج سکینڈل کافی مشہور بھی ہوا اور وزیر موصوف باعزت بری بھی ہو گئے۔ لیکن حاجیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس سال بھی حاجیوں نے شکایات کی ہیں۔ زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے وزیر موصوف نے اس کا ملبہ سعودی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی۔ جس پر سعودی سفارتخانہ کو ایک وضاحت بھی جاری کرنی پڑی۔ اس وقت جب پاک سعودی تعلقات اگر برے نہیں ہیں تو اتنے اچھے بھی نہیں ہیں۔ایسے میں اس قسم کی حرکتیں دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
سعودی سفارتخانہ نے بھی اپنے وضاحتی بیان میں نہ صرف اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا ہے بلکہ واضح طور پر کہا ہے کہ وزارت مذہبی امور کے حج کے ناقص انتظامات کے حوالہ سے بیان حقائق کے برعکس ہے۔ بلکہ اس سال حکومت پاکستان نے پچاس ذمے داران کو حج انتظامات کے لیے سعودی عرب بھیجا جن کی میزبانی سعودی حکومت نے کی تا کہ پاکستان کی حکومت اپنے حجاج اکرام کے لیے بہترین انتظامات کر سکے۔ سعودی سفارتخانہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ حجاج کرام کی تمام سفری اور قیام و طعام کی سہولیات کا بندو بست کرنا براہ راست وزارت مذہبی امورکی ذمے داری ہے۔ اس میں سعودی حکومت کی براہ راست کوئی مداخلت نہیں ہے۔ اسی لیے سعودی سفارتخانہ پاکستانی اور سعودی کمپنیوں کے درمیان معاہدوں کی تصدیق کے بغیر حج اور عمرہ کے ویزہ جاری نہیں کرتا۔ اور جہاں تک پاکستانی حجاج کرام کے لیے کیے گئے انتظامات میں کمی اور کوتاہیو ں کا تعلق ہے تو اس کے ذمے دار پاکستان کی جانب سے سعودی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے ہیں۔ جو پاکستان کی وزارت مذہبی امور نے اپنی مرضی سے کیے ہیں۔
میں حیران ہوں اس سال تو ایران نے بھی حج کے بہترین انتظامات پر سعودی حکومت کی تعریف کی ہے حالانکہ ایران اس ضمن میں سب سے زیادہ تنقید کرتا رہا ہے۔ تو پاکستان کی وزارت مذہبی امور سعودی حکومت پر کیسے ذمے داری ڈال سکتی ہے۔میری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بلیم گیم کھیلنے کے بجائے پاکستان کے اندر ایک ایسا شفاف نظام بنا یا جائے جس سے کم از کم حج کے انتظامات میں کرپشن کے تمام ممکنہ راستے بند کیے جائیں۔ کیا یہ امر بھی افسوسناک نہیں کہ ہم بطور ایک ملک اپنے حاجیوں کے لیے بہترین انتظامات کا کوئی نظام نہیں بنا سکتے۔ یہ پچاس پچاس لوگ ہر سال انتظامات کے نام پر سرکاری دورے کرتے ہیں۔ سعودی حکومت کی مہمان نوازی سے لطف اندوذ ہوتے ہیں۔ اور نتیجہ صفر۔ میں کسی پر بھی کوئی الزام نہیں لگانا چاہتے۔ لیکن حاجیوں کی شکایات ساری کہانی بیان کر رہی ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے ملک سے زیادہ عمر کے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں۔ ان کے لیے دور دور رہائش کے بندوبست کیوں کیے جاتے ہیں۔ یہ حاجیوں کو تکلیف دے کر کس کے لیے پیسے بچائے جاتے ہیں۔ ہم کونسا حج مفت کراتے ہیں۔ لوگ لاکھوں روپے دیتے ہیں اگر اچھی رہائش کے لیے چند ہزار مزید دینے پڑیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اپنی ناکامی اور کرپشن چھپانے کے لیے سعودی حکومت پر الزامات بھی کوئی پاکستان سے دوستی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات ایک نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پاکستان میں سعودی عرب کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی پر غیر ضروری سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ شاندار ماضی کو فراموش کر کے خدشات کی کہانیاں بنائی جا رہی ہیں۔ اس سب کو روکنے کی ضرورت ہے۔ نئی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کو نظر انداز کرنا نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت گیس کے معاہدوں کی وجہ سے قطر کی محبت میں گرفتار ہے ۔ لیکن یہ گیس نہ تو مفت مل رہی ہے اور نہ ہی سستی مل رہی ہے۔ اس میں قطر کی محبت میں گرفتار ہونے کی کیا ضرورت ہے۔قطر تو بھارت کو بھی گیس دے رہا ہے۔ ویسے قطر اور سعودی عرب کا پاکستان سے دوستی کے حوالہ سے بھی کوئی موازنہ نہیں ہے۔ سعودی عرب نے پاکستانیوں کے لیے ویزہ اور روزگار کے دروازے کھلے رکھے ہیں جب کہ قطر نے اس حوالہ سے پاکستانیوں پر پابندیاں عائد رکھی ہیں۔اب بھی جب قطر نے دنیا بھر کے لیے ویزہ پابندیاں نرم کی ہیں تو ابتدائی طور پر اس میں پاکستان کا نام نہیں تھا۔ اسی سے پاکستان اور قطر کی دوری کا اندازہ لگایا جا سکتا۔
نئی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج جب امریکا پاکستان پر ڈو مور کا دباؤ بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نواف سعید المالکی نے واضح کیا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس موقع پر بھی سعودی عرب ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ لیکن ہم کہاں کھڑے ہیں ہمیں نہیں معلوم۔