تحریر: امتیازشاکر
نئی نسل کی تعلیم وتربیب ،اس موضوع پر تبادلہ خیال کے ساتھ عملی اقدامات اور نت نئے طریقے اپنانے کی ضرورت جس شدت سے آج محسوس ہورہی ہے شائد پہلے کبھی نہ ہوئی ہو۔ہماری پسماندگی ،بے روزگاری، بدامنی، معاشرتی ناانصافی اوردیگر بہت سے مسائل کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی بہتر انداز میں تعلیم وتربیت کو اُس قدر اہمیت نہیں دی جتناکہ اُن کا حق تھا یاہے۔اُس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ کہ موجودہ حکومت بھی اس فریضے کو بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ پسِ پشت ڈال چکی ہے۔تعلیم و صحت کے حوالے سے بہتری کا خواب دیکھ کر گورنرہائوس میں داخل ہونے والے چوہدری سرور اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں پرن لیگ کی حکومت نے پھر بھی تعلیم وصحت کے معاملے پرکوئی قابل ذکر اقدامات نہیں اُٹھائے۔
مثال کے طورپروفاق میں بہت سے عجیب و غریب قسم کے وزیراور مشیر ہیں پر وزیرتعلیم نہیں۔ میری آج کا موضوع نئی نسل کی تعلیم وتربیت اس لئے حکمرانوں کی بقیہ سیوا کسی اور وقت کیلئے اُٹھائے رکھتے ہیں اور آج یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جوقومیں آج دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اُن کی کامیابی کے پیچھے کوئی کامیاب عورت ہے یاپھراُن کی نسل در نسل بہتر تعلیم وتربیت،قارئین یہ سچ ہے کہ آج ترقی پذیر ممالک کے مشکل ترین حالات میں انسان جس طرح معاشی بدحالی کا شکار ہے اُس میں تعلیمی اخراجات پورے ہوتے ہیں نہ ہی وقت بچتا ہے۔غریب کے بچے کو بچپن ہی سے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے ۔کام کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے اور پھر سوچوں میں گم ذہن بھی کسی چیزکو جلدی سے قبول نہیں کرتا۔ تعلیم کا حصول خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو جائے ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے ۔جوقومیں علم حاصل نہیں کرتیں وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرتیں مطلب یہ کہ اُن کے ترقی پذیر ہونے کی وجہ علم سے دوری ہے۔ علم ترقی وخوشحالی کی ضمانت ہے۔ جن قوموں نے علم کے حصول میں آسانیا ںپیدا کیں اور اپنی نسلوں کی تعلیم تربیت کی خاطر اپنے وقت اور وسائل کی قربانی دی آج وہی قومیںترقی یافتہ کہلاتی ہیں علم دنیا کی واحد دولت ہے جسے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ علم انسان کو کائنات کی سب مخلوقات سے افضل کرتا ہے۔
آج انسان نے اپنے علم وشعور کی بدولت دنیا میں کامیابیوں کی بہت سی منزلیں طے کرلی ہیں۔ انسان اپنے علم کی بدولت پانیوں کی گہرائیوں میں اتر کر سمندروں کے بہت سے خزانے اپنے نام کرچکا ہے۔آج انسان اپنے علم کی بدولت آسمان کی بلندیوں میںپرندوں سے بھی اونچی پرواز کرتا ہے۔چاند اور مریخ تک کا سفر انسان نے کامیابی کے ساتھ طے کرلیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان نے اتنی زیادہ کامیابیاں حاصل کیں کہ ان کامیابیوں کاشمار کرنا مشکل ہے ۔اس سچ سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بغیر تعلیم و تربیت حاصل کیے دنیا کی کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔اس حقیت سے انکار کرنا بھی ناممکن ہے کہ وہ علم ہی ہے جس نے انسان کو فرشتوںسے افضل کیا ۔علم ہی کی بدولت انسان اشرف المخلوقات ہے۔دورحاضر کاجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ امریکی دنیاکی کامیاب ترین قوم ہے ،تاریخ کے اوراق پلٹ کردیکھیں توپتا چلتاہے کہ جب سے امریکی قوم نے اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کو اہمیت دی تب سے وہ مسلسل کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔گزشتہ دنوں (میڈیاورلڈلائن)کی ایک رپورٹ میں بتایاگیاکہ امریکی صدر براک اوباما نے تعلیم کا ایک ایسا منصوبہ تجویز کیا ہے۔
جس کے ذریعے یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے بچے اس قابل ہوں کہ وہ کالج، تعلیم اور مستقبل کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔اْنھوں نے کہا ہے کہ اب تک کے اعداد کے مقابلے میں، امریکی ہائی اسکول کے گریجوئیٹس کی شرح سب سے زیادہ رہی ہے۔ تاہم، اْن کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی کی معشیت میں طالب علم بہتر کارکردگی تب تک نہیں دکھا سکتے ، جب تک پہلے کے مقابلے اْن کا تعلیمی معیار بہتر نہ ہو جائے۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ اس سال کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ ‘نو چائلڈ لیفٹ بہائینڈ’ نام کے قانون کی جگہ ایک متبادل نظام فراہم کیا جائے، جس میں معیاری ٹیسٹ کے بلاجواز استعمال کے معاملے کو نظر میں رکھا جائے گا، پرائمری اسکول کی سطح پر اصل سرمایہ کاری کی جاسکے گی اور ہر طالب علم کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معشیت کو بڑھاوا دینے میں حصہ دار بنے۔مسٹر اوباما نے ریپبلیکن کی قیادت کرنے والے کانگریس کی طرف سے پیش کیے جانے والے تعلیمی بِل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے اسکولوں کے لیے مختص رقوم میں اگلے عشرے تک کٹوتیاں جاری رہیں گی۔
اْنھوں نے کہا کہ اگر ایسی قانون سازی کو اختیار کیا جاتا ہے تو 2021ء میں تعلیم کے لیے 2012ء سے بھی کم رقوم میسر ہوں گی۔میڈیاورلڈلائن کے مطابق گزشتہ ہفتے، تعلیم سے متعلق ایوان کی کمیٹی کے ریپبلیکن ارکان نے ایک ایسے بِل کا مسودہ پیش کیا ، جس کی رو سے ریاستیں ناکام اسکولوں کی اصلاح سے متعلق خود ہی فیصلہ کر سکیں گی، جن کے لیے مقامی گرانٹ کا ایک لچک دار پروگرام لاگو ہوگا۔اس قانون سازی کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے سنہ 2002 ء میں صدر جارج بش کی میعاد کے دوران دونوں ایوانوں کی طرف سے منظور کردہ ‘نو چائلڈ لیفٹ بہائینڈ’ میں بہتری لائی جاسکے گی۔ میڈیا ورلڈلائن ہی کی اور ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ذہانت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو قدرت کی طرف سے عنایت ہوتی ہے اور ذہانت کو تعلیمی کامیابی کی بنیادتصور کیا جاتا ہے۔پر اب ایک نئے جائزے سے پتا چلا ہے کہ صرف ذہانت کے بل بوتے پر بچوں کی مستقبل کی کامیابیوں کا درست اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہانت کے مقابلے میں بچے کی شخصیت مستقبل کی کامیابیوں کے لیے زیادہ بڑی پیش گوئی ہو سکتی ہے۔مطالعے سے وابستہ ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کی ذہانت پر توجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت کو بہتر بنانے پر بھی بھر پور توجہ دینی چاہیے۔
کیونکہ تعلیمی کارکردگی کے ساتھ ساتھ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے بچے کی شخصیت ذہانت سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔گریفتھ یونیورسٹی کے اطلاقی نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر آرتھر پوروپاٹ کے مطابق ان کے مطالعے سے تعلیمی کامیابی کے لیے ذہانت کی اہمیت کم نہیں ہوتی بلکہ ایک چھوٹی سی مثال ہے کہ آپ کا بچہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتا ہے اور زیادہ تر گم سم رہتا ہے پر اس کے ساتھ ساتھ ہوشیار بھی ہے تو ایسے بچے کو اس کے خود ساختہ ماحول سے باہر نکالنا اورمسلسل تعلیم میں مشغول رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شخصیت کی پانچ خوبیوں میں سے ‘دہانت’ اور ‘کشادہ دلی’ کی خوبیاں تعلیمی کامیابیوں کے لیے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہیں کیونکہ یہ دونوں خوبیاں دوسرے الفاظ میں ‘سخت محنت ‘ اور’تجسس’کا اظہار کرتی ہیں جن کی مدد سے ہم بہت سی چیزوں کے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔علاوہ ازیں شخصیات کی پانچ خوبیاں جن میں ‘موافقت اور سماجی طور پر سرگرم ہونے کے علاوہ جذباتی استحکام شامل ہے، سیکھنے کے لیے حکمت عملی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔
ماہرین نے بتایا کہ ‘کشادہ دلی’ اور’ دہانت’ کی خوبی کے لیے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ میں تعلیم میں مشغول ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں پھر وہ چاہے اساتذہ سے بات چیت کے ذریعے یا پھر دوستوں کی مدد کر کے تعلیم سے منسلک رہتے ہوں۔بعض مطالعوں کے نتائج سے پتا چلتا ہے کہ ایسے طلبہ جو خود کو کافی ہوشیار تصورکرتے ہیں اکثر زیادہ محنت سے جی چراتے ہیں جس کی وجہ سے کلاس میں پیچھے رہ جاتے ہیں پراس کے برعکس مدد گار شخصیت کے حامل طالب علم ایک اوسط طالب علم کے مقابلے میں اعلی گریڈ حاصل کرسکتے ہے۔ماہر نفسیات ڈاکٹر آرتھرنے بتایا کہ تجربے کے دوران طلبہ نے اپنی شخصیت کی درجہ بندی کے ذریعے یونیورسٹی کی تعلیمی کامیابیوں کے لیے پیشن گوئی کی جیسا کہ وہ اپنے امتحانی نمبر دیکھ کر کرتے ہیں پر جب ان کی پہچان کے لوگوں نے طلبہ کو شخصیت کی بنیاد پر نمبر دئیے تو ان کی کارگردگی متوقع گریڈ کے حوالے سے چار گنا زیادہ درست ثابت ہوئی۔دونوں تجزیات سے معلوم ہواکہ دنیامیں کامیاب ہونے اور مسلسل کامیابیاں سمیٹتے رہنے کیلئے میدان تعلیم میںلگاتار محنت اور نئے نئے تجربات کی ضرورت ہے۔
تحریر: امتیازشاکر
imtiazali470@gmail.com