جنوری 2017ء کو بھارتی افواج کی سربراہی سنبھالنے والے جنرل بپن راوت کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارت کے اندر کئی صحافتی، سیاسی، سماجی اور ریٹائرڈ اعلیٰ ملٹری حلقوں کی طرف سے اُن کی مخالفت میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے جنرل راوت کی شخصیت متنازعہ حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
تجزیہ نگار، دینکار پَیری، کے مطابق: جنرل بپن راوت 2019 ء کے آخر تک تیرہ لاکھ بھارتی افواج کے سالار رہیں گے۔بھارتی آئین کے تحت، چیف آف آرمی اسٹاف مسلسل تین سال یا باسٹھ سال کی عمر تک آرمی چیف رہ سکتا ہے۔ جنرل دلبیر سنگھ کے بعد، جنرل بپن راوت دوسرے
شخص ہوں گے جو فوری طور پر ’’گورکھا رائفلز‘‘ سے تعلق رکھتے ہوئے بھارتی سپہ سالار بنے ہیں۔
دسمبر 1978ء میں اُنہوں نے ’’گورکھا رائفلز‘‘ میں کمیشن حاصل کیا اور ڈیرہ دون کی ملٹری اکیڈمی سے فوجی افسر بن کر نکلے۔ وہ ’’سورڈ آف آنر‘‘ سے بھی نوازے گئے جو فوج میں کسی بھی کیڈٹ کا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ راوت صاحب ریاست، اُتر کھنڈ، کے ’’پوری گھڑوال ‘‘ ضلع کے ایک گاؤں ( سائنا) میں پیداہوئے۔ اُن کے والد، لکشمن سنگھ راوت، بھی لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر فائز تھے۔ لکشمن بھارتی فوج میں وائس چیف آف آرمی بھی رہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ فُل جنرل کا بیٹا بھی فُل جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ جنرل بپن راوت کو یہ اعزاز بھی ملا ہے۔
ممتاز بھارتی ماہرِ عسکریات، جوزی جوزف، کے مطابق: ’’جنرل راوت کے تقرر میں پہلی باربھارتی سیاست کا بھی ہاتھ سامنے آیا ہے۔‘‘ اُنہوں نے روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں اس تقرر کی منطقی مخالفت کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: ’’بھارتی فوج کے اندر بھی تعصبات سے کام لیا جاتا ہے۔ انفینٹری والے ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ انفینٹری ہی کا آدمی آرمی چیف بنے۔ انفینٹری والے خود کو فوج کا ’’اعلیٰ ذاتی‘‘ فرد بھی قراردیتے ہیں اور اکڑتے بھی یہی لوگ زیادہ ہیں۔ جنرل بپن راوت بھی چونکہ انفینٹری سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کوشش یہی کی گئی کہ وہی جنرل دلبیر سنگھ سہاگ کے بعد آرمی چیف بنیں۔ یہاں بھی ایک بار پھر اندرونی تعصب کام دکھا گیا۔ اسے دراصل عسکری اقربا پروری کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔‘‘
جوزف مزید لکھتے ہیں: ’’اب بھارتی فوج میں بھارتی مقتدر سیاستدانوں کا عمل دخل حد سے زیادہ تجاوزکرتا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ آگے چل کر خطرناک نتائج کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘‘ اِسے صریح ناانصافی کہا جا رہا ہے کہ جنرل بپن سے دونوں سینئر جرنیلوں، جنرل پراون بخشی اور جنرل ہارز، کو اس لیے نظر انداز کیا گیا کیونکہ ان دونوں کا تعلق انفینٹری کے بجائے، بالترتیب، آرمرڈ کور اور میکانائزڈ انفینٹری سے تھا۔ اِس فیصلے سے بھارتی فوج کے اندر دوسری کوروں سے وابستہ فوجی جوانوں اور افسروں کو، دوسرے معنوں میں نکّو بناکر رکھ دیا گیا ہے۔
یہ بھی ناانصافی ہے کہ بھارتی فوج میں حالیہ ایام کے دوران میجر جنرل کے رینک پر جتنی بھی ترقیاں اور پرموشنیں ہوئی ہیں، ان میں زیادہ تر انفینٹری کے افسران تھے۔ کہا گیا ہے کہ جنرل بپن راوت کو اس لیے بھارتی فوج کا سربراہ متعین کیا گیاہے کیونکہ وہ (مقبوضہ) کشمیر میں بھڑکتے حالات کو کنٹرول کرنے اور ’’دہشت گردوں‘‘ کے خاتمے میں مسلسل کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں۔ بھارتی تجزیہ نگار استفسار کر رہے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر (مقبوضہ) کشمیر میں2016ء کے دوران آزادی پسندوں کے ہاتھوں اتنی زیادہ تعدادمیں بھارتی فوجی کیوں اور کیسے مارے گئے؟ پھر جنرل راوت کی مذکورہ مہارت کیا ہوئی؟ (مقبوضہ) کشمیر میں 80ء کے عشرے سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ اِن میں سے اب تک دس ہزار کے قریب، کشمیری مجاہدین کے ہاتھوں، مارے جا چکے ہیں۔
جولائی 2016ء میں ایک کشمیری مجاہد، برہان مظفر وانی، کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد مسلسل پانچ ماہ تک کشمیر بھر میں بھارت کے خلاف جو ناراضی اور غصے کا طوفان اُبل پڑا، اِس دوران جنرل بپن یہیں تھے۔ سوال کیا گیا ہے کہ اگر یہ صاحب ’’کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز‘‘ میں اتنے ہی یدِطُولیٰ رکھتے تھے تو اِس نئی تحریک کو دبا کیوں نہ سکے؟
جنرل بپن راوت کو بھارتی آرمی چیف لگائے جانے پر جو تنازعہ شروع ہوا ہے، وہ فرو نہیں ہو رہا۔ سوالات اور اعتراضات کی ایک متنوع یلغار ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اصول یہ ہے کہ بھارتی فوج کے سات سینئر جرنیلوں میں سے ہر ایک چیف آف آرمی اسٹاف بننے کا اہل ہوتا ہے۔ وقت آنے پر بھارتی وزارتِ دفاع اِن میں سے تین ناموں کا انتخاب کرکے کابینہ کی اپوائنٹمنٹکمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ وزیراعظم ہیں اور اُنہی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
بی جے پی والے بطورِ طنز 1983ء میں مسز اندرا گاندھی کے اُس فیصلے کا بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ بطورِ وزیر اعظم ہند اُنہوں نے بھی تو ایک جونئیرجرنیل، جنرل وِدیا، کو آرمی چیف بنادیا تھا حالانکہ جنرل ایس کے سنہا سینئر جنرل ہونے کے ناطے آرمی چیف بننے کے اہل تھے۔
بھارتی ماہرِ عسکریات، جوزی جوزف، کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی نے ایس کے سنہا کو اس لیے آرمی چیف بنانے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ سنہا صاحب نے مسز گاندھی کو منع کر دیا تھا کہ آپ باغی اور علیحدگی پسند سکھوں کے خاتمے کے لیے سکھوں کے مقدس مقام، گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرنے کا خیال دل سے نکال دیں کیونکہ اس سے بہت تباہی ہوگی۔ اور سکھوں کے دلوں میں بھارت اور بھارتی اکثریتی ہندوؤں کے خلاف ہمیشہ کے لیے نفرت بیٹھ جائے گی۔ اندرا کو یہ مشورہ پسند نہیں آیا تھا کیونکہ وہ ہر حال میں سکھوں کی سرکوبی کے لیے گولڈن ٹیمپل، جہاں علیحدگی پسندوں کے لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی، کو تہس نہس کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی تھیں؛ چنانچہ مسز گاندھی نے بُغض سے مغلوب ہو کر سنہا کی جگہ جنرل وِدیا کو آرمی چیف بنا دیا کیونکہ جنرل ودیا وزیر اعظم کی ہاں میں ہاں ملانے میں کبھی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے۔
بعد میں اندرا نے حسبِ خواہش گولڈن ٹیمپل پر ہلّہ بول دیا۔ اس فوجی یلغار کے وہی نتائج برآمد ہوئے جس کی پیشگوئی جنرل ایس کے سنہا نے کی تھی۔ سارا ہندوستان سکھ و ہندو فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ لاتعداد سکھ بھی مارے گئے اور ہندو بھی۔ اندرا گاندھی خود بھی اس حملے کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ جنرل سنہا نے جنرل ودیا کے آرمی چیف بننے پر بھارتی فوج سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔
سابق سینئر بھارتی فوجی افسروں کی جانب سے نئے بھارتی آرمی چیف، جنرل بپن راوت، پر تنقید جاری ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے یہ جنرل بطور بھارتی سپہ سالاراُن کے دلوں اورذہنوں میں بیٹھ نہیں رہا۔ اِس تقرر کو میرٹ نہیں، بلکہ فوج میں بھارتی مقتدر سیاستدانوں کی کار فرمائی کا نام دیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، سابق بھارتی فوجی جرنیل، لیفٹیننٹ جنرل(ر) انیل چیت، نے ایک بھارتی اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہاہے:’’ تازہ منظر میں تو یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ دن ہواہوئے جب بھارتی فوج سیاسی مداخلتوں سے مبرا سمجھی جاتی تھی۔ جنرل بپن کا تقرر اُن پرانے ایام کے خاتمے کا آغاز ہے۔‘‘
اُنہوں نے جنرل بپن راوت کی کارکردگی پر انگشت نمائی کرتے ہُوئے کہا:’’ کیا بھارتی آرمی چیف بننے کی بنیادی شرط یہی رہ گئی ہے کہ وہ کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنوں کا ماہر ہو؟مُودی نے اچھی مثال قائم نہیں کی ہے۔ ‘‘ اور بھارتی نیوی کے سابق سربراہ، ایڈمرل (ر)ارون پرکاش، نے بھی تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ۔۔۔ ’’نئے آرمی چیف کی نامزدگی کرتے ہوئے اگر صرف سینیارٹی کو میرٹ بنایاجاتا تو جنرل راوت کے حوالے سے پیدا ہونے والے بہت سے سوالات اور تنازعات سے بچا جاسکتا تھا لیکن (نریندر مُودی) حکومت نے اس اصول کا دامن تھامنے سے انکار کردیا۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ مودی صاحب نے جنرل راوت کو بھارتی افواج کا سالار متعین کرکے اپنی مرضی اور طاقت کااظہار تو یقینا کر دیاہے لیکن اب اس کا بھگتان بھی بھگت رہے ہیں۔