روس(نیوز ڈیسک ) گذشتہ روز سعودی آئل ریفائنری پر حملے سے متعلق ٹرمپ کے بیان پر چین کا ردِعمل آ یا تھا۔چین نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کا الزام بغیر شواہد کے ایران پر عائد کرنا غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ کشیدگی میں اضافے کے کسی بھی اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔
مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے لیے امریکا اور ایران احتیاط سے کام لیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دنیا کے دیگر عالمی طاقتوں کے برعکس ان حملوں کے بعد روس اور چین نے ایران کی مکمل طور پر حمایت کیا اور اس معاملہ کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔روس نے ایران کے خلاف ممکنہ امریکہ کارروائی کے حوالے سے کہا ہے کہ ایران پر کسی بھی قسم کی جارحیت یا طاقت کا استعمال بالکل قابل قبول نہیں۔روس نے کہا ہے کہ اس سے صرف خطے کا استحکام خطرے سے دوچار ہوگا۔جب کہ دوسری جانب روسی ذرائع ابلاغ نے سعودی آئل تنصیبات پر ڈرون حملے کو امریکی دفاعی نظام کی ناکامی قرار دیا ہے۔معروف صحافی فنیان کننگھم کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثی باغیوں نے اس حملے کی ذمہ داری واضح طور پر قبول کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے اس حملے میں دس ڈرونز کا استعمال کیا۔ پہلے بھیجے جانے والے ڈرونز نے امریکی دفاعی نظام کو ناکارہ بنایا اور دوسرے گروپ نے تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔تاہم امریکہ اپنے اتحادی ملک سعودی عرب کے تحفظ میں ناکامی کا ملبہ ایران پر ڈالنے کے لئے اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ حوثی باغیوں کا حملہ روکنے میں ناکامی خود امریکہ کے لئے خفت اور شرمندگی کا باعث ہے۔
فنیان کننگھم کے مطابق سعودی عرب نے امریکہ سے اربوں ڈالر مالیت کے پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم اور جدید ترین ریڈار ٹیکنالوجی خرید رکھی ہے۔حوثی باغیوں کی طرف سے اپنے ڈرونز کے ذریعے سعودی سرحد پار کرکے ایک ہزار کلومیٹر اندر جاکر تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں سعودی خام تیل کی پیداوار پچاس فیصد تک کم ہوگئی اور یہ سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنے کے دعویدار امریکہ کے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہے۔ فنیان کننگھم نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب جو خام تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور امریکی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتا ہے ہرسال امریکہ سے 68 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدتا ہے اور سٹاک ہوم انٹر نیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق دفاعی بجٹ کے لحاظ سے امریکہ اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔امریکی انتظامیہ کی طرف سے سعودی تنصیبات پر حملے کا الزام ایران پر عائد کرنے کے اقدام پرخود امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے حکام کے مطابق سعودی تنصیبات کو ڈرونز سے نہیں بلکہ کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا اور اس بات کے ثبوت میں کہ حملہ ایران یا عراق سے کیا گیا حملے کا نشانہ بننے والی سعودی تنصیبات کے سیٹلائٹ امیجز بھی جاری کئے تاہم نیویارک ٹائمز نے سوال اٹھایا کہ حملے میں ریفائنری کے مغربی حصے کو نقصان پہنچا جو ایران یا عراق کی طرف نہیں ہے۔دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی ابتدائی طور پر یہی رپورٹ کیا کہ سعودی عرب کی عبقیق میں تیل کی تنصیبات کو ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔ مائیک پومپیو نے اس حوالے سے اگرچہ واضح طور پر ایران کا نام لیا ہے تام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے میں ایران کے ملوث ہونے کا محض امکان ظاہر کیا ہے اور سعودی عرب سے تصدیق کا ذکر کیا ہے۔ ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کو مسترد کردیا ہے اور چین نے بغیر تحقیقات اور ثبوت کے ایران پر حملے کا الزام عائد کرنے کے اقدام کو غیرذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔