انقرہ (ویب ڈیسک) ترکی میں حکومت کی جانب سے مجوزہ نئے قانون کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے ہیں اور اپوزیشن پارٹیوں سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ بل کو واپس لیا جائے۔ ترکی کی حکومت نے رواں ماہ 16 جنوری کو پارلیمنٹ میں ایک مجوزہ بل بحث کے
لیے پیش کیا تھا جس کے تحت ’لڑکیوں‘ اور ’خواتین‘ کو ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے والے شخص کو متاثرہ خاتون سے شادی کرنے پر معافی دی جا سکتی ہے۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ حکومت نے ایک متنازع بل پیش کیا ہے، اس سے قبل حکومت نے ایسا ہی بل 4 سال قبل 2016 میں بھی پیش کیا تھا جس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ چار سال قبل مجوزہ متنازع بل کے خلاف شدید مظاہروں کے بعد حکومت نے بل واپس لے لیا تھا مگر اب ایک مرتبہ پھر حکومت نے پرانے بل سے ملتا جلتا مجوزہ بل پیش کیا ہے۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق حکومت کے مجوزہ بل کو جنوری کے آخر تک ایک بار پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا تاہم بل کو دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے سے قبل ہی اس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ بل کی مخالفت کرنے والی اپوزیشن کی جماعتوں اور انسانی حقوق و خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بل کو واپس لیا جائے۔ بل کے خلاف مظاہرے کرنے والے افراد اور تنظیموں کے مطابق مجوزہ بل کے قانون بن جانے سے ترکی 70 سال پیچھے چلا جائے گا۔ بل کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اب جب کہ پوری دنیا میں ’ریپ‘ کرنے والے افراد کے خلاف سخت قوانین اور سزائیں متعارف کرائی جا رہی ہے وہیں ترک حکومت ’بچوں سے جنسی زیادتی‘ کرنے والوں کو معافی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
میری اور کیپٹن نوید کی گندی ویڈیو : دراصل ہوا یہ تھا کہ ۔۔۔۔ اداکارہ میرا نے خود ہی سب کچھ بتا دیا
مجوزہ بل کے تحت کم عمر لڑکیوں اور خواتین کے ’ریپ‘ کرنے والے افراد کو ایک شرط پر معافی مل سکتی ہے اور وہ سزا سے بچ سکتے ہیں۔ مجوزہ بل کے تحت اگر ’ریپ‘ کرنے والا شخص متاثرہ فرد سے شادی کرلیتا ہے تو اسے سزا نہیں دی جائے گی تاہم بل کے تحت ’ریپ‘ کرنے والے ملزم کو متاثرہ خاتون یا لڑکی کو راضی کرنا ہوگا۔ مجوزہ بل کے مطابق ’ریپ‘ کرنے والے اور ’ریپ‘ کی شکار خاتون کی عمر کے درمیان 10 سے 15 سال کا فرق ہوگا تو یہ قانون ملزم کی مدد کر سکے گا اور اگر دونوں کی عمروں میں اس سے زائد کا فرق ہوگا تو اس حوالے سے قانونی کارروائی کی جائے گی۔ مجوزہ بل میں کم عمر لڑکیوں اور خواتین کے ریپ کرنے والے افراد کو متاثرہ خواتین سے شادی کی شرط پر معافی دینے کی تجویز پر لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی تنظیم اس بل کو بچوں کی شادی سے جوڑ رہے ہیں۔ سماجی و انسانی حقوق کے رہنماؤں کے مطابق مجوزہ بل سے جہاں خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی تشدد میں اضافہ ہوگا وہیں کم عمری کی شادیاں بھی ہوں گی اور خواتین کو ایک ایسے نفرت انگیز شخص سے شادی پر مجبور کیا جائے گا جس نے ان کا استحصال کیا۔ مجوزہ بل کے خلاف اپوزیشن کے احتجاج اور سماجی تنظیموں کے مظاہروں پر تاحال حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا اور خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ہفتے تک مجوزہ بل کو بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے بعد اس کی منظوری لی جائے گی۔