وزیراعظم نے ملتان میٹرو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس نے نیا پاکستان دیکھنا ہو وہ ملتان آئے۔ ان کامطلب یہ تھا کہ عمران خان تو نئے پاکستان کی صرف گردان ہی کرتے رہتے ہیںمگر یہ نیا پاکستان وزیرا عظم کے ہاتھوں تشکیل پا رہا ہے، اس سے قبل لاہور اور راولپنڈی میں میٹرو چالو ہو چکی ہے اور لاہور ہی میں اورنج ٹرین بھی تعمیر کی جا رہی ہے جسے فی الوقت عدالتی سٹے آرڈر پر رکوا دیا گیا ہے، یہ ہمارے نظام کی خامی ہے کہ کہ کوئی شخص کسی بہانے عدالت سے رجوع کر کے کسی اچھے بھلے کام کو رکوا سکتا ہے۔
نئے پاکستان کا نعرہ تو بہت لگتا ہے، پہلی بار یہ نعرہ بھٹو نے لگایا اورا ٓدھے پاکستان کو نیا پاکستان کہہ کر لوگوں کا دل بہلانے کی کوشش کی۔ اب یہ نعرہ تواتر کے ساتھ پچھلے تین برس سے عمران خان بلند کر رہے ہیں۔ اللہ نے عمران کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر خیبر پی کے میں حکومت دی، مگر ا س صوبے سے ابھی تک ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا جس سے پتہ چلے کہ عمران خان کس قسم کا نیا پاکستان بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ابھی تو یہ صوبہ ادھڑا ہوا ہے، اس کا دامن تار تار ہے، دہشت گردوں نے صوبے کے عوام کی زندگی میںخلل ڈالے رکھا، ان کی بیخ کنی تو فوج نے کر دی مگر سوات اور مالاکنڈ کی صفائی بھی ہو چکی ا ور اب فاٹا کو بھی کلیئترکروایا جاچکا ہے، عمران ا ور ان کی پارٹی کا فرض تھاکہ وہ فوج کو سول ڈیوٹیوں سے فارغ کرتے اور روزمرہ کے امور اپنے ہاتھ میں لیتے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ سوات میں فوج ابھی تک تھانوں کی ڈیوٹی بھی سنبھالے ہوئے ہے اور شمالی وزیرستان کے مہاجرین بھی مردان اور گردو نواح میں دھکے کھا رہے ہیں، ان کی دیکھ بھال کی طرف پشاور حکومت نے انتہائی غفلت برتی اور اب ان کی واپسی کے لئے بھی ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے، نہ اس سلسلے میں وہ وفاقی حکومت سے کوئی مشاورت کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن ہے جسے پنجاب میں حکومت ملی ہوئی ہے، شہباز شریف کی حالیہ دور میں دوسری ٹرم ہے اور انہوں نے صوبے کی حالت بدلنے کے لئے کئی ایک اقدامات کئے ہیں۔ سب کچھ تو ایک مختصر مدت میں نہیں ہو سکتا تھا مگر ظاہری طور پر لوگوں کو نظر آتا ہے کہ پنجاب بدل گیا اور پچھلا الیکشن بھی اس نعرے پر لڑا اور جیتا گیا کہ بدل دیا پنجاب، بدلیں گے پاکستان۔ اس حکومت کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا تھا جس کی طرف بھرپور توجہ دی گئی اور اب ملک میں وہ اندھیرا نہیں ہے جو پیپلز پارٹی کے دور میں ملک پر چھایا ہوا تھا، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے چین کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے کئی معاہدے کئے جن میں سے اکثر منصوبے اگلے سال تک پیداوار دینا شروع کر دیں گے۔ملکی خزانے میں جوہری تبدیلی واقع ہو چکی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، اسٹاک مارکیٹ کا جوبن بھی دیکھنے والا ہے۔
اس حکومت سے باقی صوبوں کی شکائت یہ تھی کہ ملک مںمتوازن ترقی نہیں ہو رہی اور صرف پنجاب تک ساری توجہ مرکوز ہے مگر سی پیک کی ایک حالیہ میٹنگ میں دوسرے صوبوں کے وزرائے ا علیٰ نے شرکت کی اور اور چین نے پشاور میں میٹرو منصوبے کی تکمیل کی حامی بھری ہے، کراچی میں سرکلر ریلوے کے منصوبے کی منظوری دی گئی ہے اور بلوچستان کے نام تو سارا سی پیک ہی کر دیا گیا ہے، گوادرکی بندرگاہ چل نکلی تو اس صوبے کی زقندیں دیکھنے والی ہوں گی۔
پاکستانی عوام ہر حکومت کی کارکردگی کو دیکھ رہے ہیں اور ان کا موازنہ بھی کرتے ہیں، زرداری کو پانچ سال وفاق میں ملے مگر سندھ میں تو انہی کی حکومت ہے، صوبے پر نظر ڈالیں تو انسان کو خوف محسوس ہوتا ہے، تھر میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بچے بھوک اور پیاس کے ہاتھوں موت کی آغوش میں جا رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے ان کی بدقسمتی کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ تھر میں اس طرح کی اموات تو ہمیشہ سے ہو رہی ہیں، فرق یہ ہے کہ اب میڈیا کی نظر ان پر پڑ گئی ہے، گویا میڈیا کی نظر نہ پڑے تو لوگوں کی اموات کوئی مسئلہ نہیں، کراچی کا جو برا حال کیا جا چکا تھا، وہ محتاج وضاحت نہیں۔ کراچی ایک بدامنی کا گڑھ تھا جبکہ یہ شہر اصولی طور پر اور عملی طور پر پورے ملک کی اقتصادی اور مالیاتی شہہ رگ ہے۔ اس شہر کو میاںنواز شریف کی حکومت نے رینجرز اور فوج کی مدد سے صاف کیا اوراسے رہنے کے قابل بنایا۔
اب ملتان میں میٹرو بس کے افتتاح سے یہ طعنہ بھی ختم ہو جانا چاہئے کہ جنوبی پنجاب کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، رحیم یارخان کے ترقیاتی منصوبے دیکھنے کے لائق ہیں۔ جنوبی پنجاب واحد علاقہ ہے جس کی پس ماندگی کا رونا بھی رویا جاتا ہے مگر جس کے کم از کم تین خاندانوں کے پاس ذاتی جیٹ طیارے ہیں، وسطی پنجاب میںکسی ا یک کے پا س نہیں۔ اس کے باوجود جنوبی پنجاب کی غربت کا رونا رویا جائے تو یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ یہی حال سندھ کے وڈیروں کا ہے جن کی دولت حدو شمار سے باہر ہے اور جن کی کانسٹی چیونسی ان کے مزارعین کی وجہ سے تاریخی طور پر پکی ہے مگر سندھ کے یہ وڈیرے اور جنوبی پنجاب کے جیٹ طیاروں میں گھومنے والے اگر عام آدمی تک ترقی کے ثمرات نہ پہنچنے دیں تو اسکا کیا علاج۔
وزیراعظم اپنی دھن کے پکے ہیں اور ہر قسم کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں، اور ملک کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں، وہ تجربے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ اسی کے عشرے سے اقتدار اور سیاست میں ہیں۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں، اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکے ہیں اور بڑے دبنگ طریقے سے۔ وہ جلاوطنی کے پل صراط سے بھی گزر چکے ہیں، اسلئے گرم و سرد چشیدہ وزیراعظم عوام کی خوشحالی کے منصوبے مکمل کر کے حقیقی خوشی سے سرشار ہیں، لوگ ان کے لئے نعرے لگاتے ہیں، وی لو یو!
وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ انہیں عوام سے محبت ہے اور اس محبت کا ثبوت وہ منصوبے ہیں جو عوام کی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، ان کے مقابلے میں اگرکسی نے کچھ کیا ہوتا تو میں اس کا ذکر ضرور کرتا، ہاں ، عمران صاحب نے ضرور کیا کہ اپنی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چار ارب اکٹھے کر کے پشاور میں شوکت خانم ہسپتال بنا ڈالا، یہی کچھ وہ کراچی میں کرنے جا رہے ہیں، کاش! وہ کوئی موٹروے بناتے، کوئی سول ہسپتال بناتے، کوئی پبلک ٹرانسپورٹ چلاتے۔ بچوں کے لئے سرکاری اسکولوں کا جال بچھاتے، بس انہوںنے اگر کچھ کیا تو اپنی والدہ صاحبہ کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے اور اپنی حکومتی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چندہ خوری کی۔
جس طرح لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ جو شخص حکومت کی اعلیٰ سطح پر ہو، وہ ذاتی کاروبار ترک کر دے، اسی طرح لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سیاستدان اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر چندے نہ اکٹھے کریں، اپنی جیب سے بھی عوام کو کچھ دیں اور عوام کی اجتماعی خوش حالی کے منصوبے بنائیں اور مکمل کریں جس طرح وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب عوام کی خدمت کے لئے کوشاں ہیں، حکومت نے کو ئی کام نہ کیا ہوتا توکون ان کا قصیدہ لکھتا۔ اور عمران نے سوائے تنقید کے کوئی ٹھوس اور دیرپا کام کیا ہوتا تو کوئی ان کے بھی گن گاتا۔