لاہور (تجزیہ: سلمان غنی ) پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں آج سے نئے پارلیمانی عہد کا آغاز ہو رہا ہے ، عوام الناس نے یقیناً اس توقع اور امید کے ساتھ ووٹ دئیے ہیں کہ ملک میں جاری سیاسی و اقتصادی بحران ختم ہو اور نئے مینڈیٹ کی حامل حکومت ہمارے معاشی، سیاسی اور سکیورٹی کے چیلنجز سے نمٹے ۔
کیا نئے پارلیمانی عہد میں پاکستان ترقی و خوشحالی کی منزلوں کی جانب قدم بڑھا سکے گا؟ وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کس حد تک موثر اور خود مختار ہو گی؟ کیا حکومت اور اپوزیشن اپنی لڑائی کو گلیوں، بازاروں سے سمیٹ کر اسے منتخب ایوان میں لے جائیں گی؟ اپنے اپنے سیاسی ایجنڈوں سے بالاتر ہو کر کسی مثبت سیاست اور نتیجہ کی طرف پیش رفت کر سکتے ہیں؟
آج ملک کی پارلیمنٹ جو عوام کی امنگوں، امیدوں کی محور ہے، اپنے نئے پارلیمانی عہد کا آغاز کر رہی ہے ۔ اس پارلیمنٹ کو اس لحاظ سے 1971 کی پارلیمنٹ کے بعد ضرور یاد کیا جائے گا کہ اس میں نئے سیاسی نظریے پر یقین رکھنے والے نوجوان مگر پر عزم چہرے عوام سے تائیدی ووٹ لیکر اس کی زینت بنے ہیں۔ بلا شبہ یہ ایک نئی سیاسی روایت کا آغاز ہے ۔ آگے چل کر یہ نوجوان سیاست دان اپنے سیاسی و پارلیمانی کردار کو کئی دہائیوں تک نبھاتے رہیں گے ۔ پارلیمانی سیاست میں نیا اور پر جوش خون تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے ۔ دوسری اہم بات جو اس پارلیمنٹ کی نسبت ہمیشہ یاد رہے گی وہ یہ ہے کہ 1971 کی پارلیمنٹ کے بعد ملک دو نظریاتی سیاسی پارٹیوں کی سیاسی گرفت میں رہا ہے ۔
مگر اب اس پارلیمانی عہد نے وقت کا دھارا تبدیل کر دیا ہے اور اب ملک دو جماعتی نظام سیاست سے نکل کر تیسری بڑی جماعت کے سپرد ہو رہا ہے ۔ یہ احساس بذاتِ خود پاکستانی سیاست میں تازگی کا احساس ہے ۔ متوقع حکومتی جماعت پی ٹی آئی کا اعجاز ہے کہ نئے سیاسی چہرے ملک میں طلبہ سیاست پر پابندی کے باوجود عمران خان کی جدوجہد کے ذریعے سیاست کے میدان میں آئے ہیں۔ اس پارلیمنٹ کا ماحول کیسا ہوگا؟ ہمارے چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت کتنی ہوگی؟ یہ اہم ترین اور غور طلب معاملات ہیں۔
پارلیمنٹ ہماری سیاسی تاریخ کے برعکس نئے چہروں کی اکثریت پر مشتمل ہے تو پھر پرانے پارلیمانی رویوں کو خیر باد کہنے کی روایت بھی شروع ہونی چاہئے ۔ پارلیمنٹ نہ تو ایک تقریری مقابلے کا میدان بنے اور نہ ہی محاذ آرائی کیلئے مچھلی منڈی کا سماں پیش کرے کیونکہ اب تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہمارے مسائل اب بہت زیادہ ہیں۔ ریاست تقریباً ہر حوالے سے ناکامی کے گہرے گڑھے کے کنارے کھڑی ہے ۔ ریاست اپنی فلاح و بہبود کی ذمہ داری کی ادائیگی میں ناکام ہو چکی ہے اور تحریک انصاف کا مینڈیٹ ہی اس رد عمل کی نمائندگی کرتا ہے ۔
لہٰذا اب پارلیمنٹ ایک روایتی ربڑ سٹیمپ کے بجائے قوم کی اجتماعی دانش کا مظہر بنے اور اس کی ترجیح وہ عام آدمی ہونا چاہیے جسکے ووٹ سے اس پارلیمنٹ کا وجود بنا ہے ۔اگر وزیراعظم نئی اعلان کردہ پالیسی کے تحت ایک گھنٹے کیلئے عوام کے نمائندوں کو جوابدہی کیلئے تشریف لائیں گے تو پھر اپوزیشن لیڈر اور تمام نمائندے بھی ایوان کو سنجیدہ لیں گے ۔
ہماری ماضی قریب کی پارلیمانی سیاست میں نہ تو نواز شریف آتے تھے اور نہ ہی عمران خان اس ایوان میں آتے تھے ۔ اب تمام نظریں عمران خان پر جمی ہیں کہ وہ خود اس پارلیمنٹ کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ نے انہی نیک خواہشات پر کام شروع کیا تو کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی بحران گلی کوچوں سے واپس پارلیمنٹ لوٹ آئے ۔ اپوزیشن بھی ہمیشہ ایک متبادل اور متوازی حکومت سازی خاکہ اپنے پاس رکھتی ہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا پارلیمانی ماضی محض محاذ آرائی اور احتجاج پر مبنی ہے ۔ لہٰذا اب اپوزیشن سے درخواست ہے کہ وہ ماضی کی ایسی منفی روایات کو آگے لیکر نہ بڑھے۔