جموں و کشمیر کا پاکستان کا حصہ ہونا ہمیشہ سے اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نقطہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا اس کا مقصد دنیا اور خصوصاً کشمیر کے لوگوں کو بتانا ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ موجودہ حکومت مسئلہ کشمیر پر جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور نئے سیاسی نقشے کا اجرا انہی جارحانہ پایسیوں کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سلسلے میں متوقع ردعمل کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کونسل پاکستان کے اس عمل کو جبر سے تعبیر کر سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کے ’سرکاری نقشے‘ میں تبدیلی کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور سر کریک کے علاقے کو پاکستان کا حصہ دکھایا ہے۔ نئے سیاسی نقشے میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو بھی صوبے کے حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس نئے نقشے کی منظوری منگل کو اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی۔
اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے خطاب میں کہا کہ نیا نقشہ اب سے پاکستان کا سرکاری نقشہ ہو گا اور اسے اقوام متحدہ میں بھی پیش کیا جائے گا۔ ‘یہی نقشہ اب سکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب اور دوسری سرکاری دستاویزات میں بھی استعمال کیا جائے گا۔’ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے، جو کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیتی ہیں۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کی حکومت نے گذشتہ سال پانچ اگست کو ملکی آئین میں متنازع تبدیلی کرتے ہوئے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک کے نقشے میں تبدیلی کی اور جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا دیا۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ اپنا سیاسی نقشہ پیش کیا ہے۔ اس سے قبل 1949 اور 1976 میں ملک کے انتظامی نقشے جاری کیے گئے تھے۔ پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نئے نقشے پر ملک کی ساری سیاسی قیادت متفق ہے۔ انہوں نے پاکستانی قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ وزارت خارجہ نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اس متعلق اعتماد میں لیا جبکہ کشمیری قیادت بھی اس سلسلے میں آن بورڈ ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان کے نقشے میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ 1۔ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کے ساتھ لگے گی۔ 2۔ ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع لائن آف کنٹرول پوائنٹ 9842 پر اختتام پذیر ہوتی تھی۔ اب نئے نقشے میں اس کو چین کی سرحد سے ملا دیا گیا ہے۔ یوں نئے نقشے کی حد تک سیاچن پاکستان کا حصہ بن گیا ہے۔ 3۔ پاکستان کے جنوب میں واقع متنازع سر کریک کو نئے نقشے میں پاکستان میں شامل کر دیا گیا ہے، جس میں پاکستانی بین الاقوامی سرحد سر کریک کے مشرقی کنارے پر دکھائی گئی ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان کی سرحد سر کریک کے مغربی کنارے تک ہے۔ 4۔ نئے نقشے میں سابقہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو بھی صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ فاٹا کا انتظام صوبے میں ضم ہونے سے پہلے مخصوص قوانین کے تحت چلایا جاتا تھا۔
دوسری طرف بعض سفارت کاروں نے تحریک انصاف حکومت کے اس اقدام کو ناپسند کرتے ہوئے کہا کہ نیا نقشہ اسلام آباد کا سب سے آخری قدم
ہونا چاہیے تھا۔ ایک سابق سفارت کار نے کہا کہ حکومت سے تھوڑی جلد بازی ہو گئی ہے، ابھی اس کا وقت نہیں تھا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کی آزادی سے متعلق ابھی پاکستان کے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے، ابھی یہ موقع نہیں تھا کہ نقشے میں بھارت کے زیر انتظام علاقوں کو پاکستان کا حصہ دکھایا جاتا۔ ایک دوسرے سابق سفارت کار کا کہنا تھا کہ نقشے میں تبدیلیوں سے چین کے بعض علاقے بھی پاکستان کا حصہ بن جائیں گے، جس پر بیجنگ اعتراض کر سکتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک جذباتی فیصلہ ہے کیونکہ پاکستان بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ مانتا ہے، تو ایک متنازع علاقے کو اپنے ملک کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ یہ قدم اٹھا کر اسلام آباد نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پورے جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ سجمھتا ہے اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت اس کا حل چاہتا ہے، تو ایسے میں ایک متنازع علاقے کو نقشے کی حد تک اپنا حصہ دکھانے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی کونسل اس سلسلے میں پاکستان پر اعتراض بھی اٹھا سکتی ہے کہ آپ نے متنازع علاقے کو کیوں اپنا حصہ ظاہر کیا۔ ‘نقشہ جاری کرنے سے پہلے اس کا کسی بین الاقوامی ادارے سے منظور کروایا جانا ضروری ہوتا ہے جو کہ موجودہ صورت میں نہیں ہوا۔’ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے گذشتہ سال کے ایک غلط اقدام کے جواب میں ویسا ہی غلط قدم اٹھانا کوئی عقل مندی نہیں، کسی نے حکومت کو بہت ہی غلط مشورہ دیا ہے۔ اس نقشے کی تائید پاکستان کی اپوزیشن لیڈر شپ نے بھی کی ہے۔ یہ نقشہ پاکستان کی طرف سے ایک ایسے موقع پر پیش کیا گیا جب بُدھ 5 اگست کو بھارت میں مودی سرکار کی طرف سے ایک سال قبل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا متنازعہ اعلان سامنے آیا تھا۔
اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء نے کہا کہ پہلے بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی گئی تھی لیکن موجودہ حکومت کے غیر دانشمندانہ رویے نے اس اہم مسئلہ کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،”میری کچھ کشمیریوں سے بات ہوئی ہے جنہوں نے عمران خان کے موجودہ اقدام کو محض ایک ڈرامہ قرار دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مذاق ہے۔ اب دیکھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ان شوشوں کے سبب ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کل ہی رولاکوٹ تتہ پانی سیکٹر میں بھارت کی طرف سے فائرنگ ہوئی ہے جس سے کوئی گیارہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جس میں سات خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘ صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنے سے کشمیر آزاد ہر گز نہیں ہو گا۔ ان کے بقول،” صرف گانے بنانے اور شاہراوں کے نام بدلنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر موجودہ حکومت واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لیےعالمی عدالت سمیت عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مضبوط بنائے جس سے کوئی حقیقی فائدہ ہو۔‘‘ ملک اسراء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیریوں کو ہے کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں یا اپنی ریاست چاہتے ہیں؟ اپنے جیسے دیگر صحافیوں کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملک رمضان اسراء نے کہا،”سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھارت کے ظلم وستم کے خلاف تو باتیں کی جاتی ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر ہم اپنے ملک میں قبائلیوں، بلوچوں اور اقلیتی برادریوں کے معاملے میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت اپنی ریاست میں قتل و غارت پر خاموش ہو کیا اس کو حق ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی بات کرے.
‘‘
پاکستان کا نیا نقشہ اور کشمیری قوم پرستوں کا رد عمل
کشمیری قوم پرست پاکستان کے اس اقدام پر چراغ پا ہیں۔ معروف کشمیری راہنما اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ترجمان رفیق ڈار نے اس مسئلے پر اپنی جماعت کا نقطہ نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “اسلام آباد کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف ہے جس کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے جس طرح بھارت نے انیس سو ترپن میں نیم خودمختاری ختم کر کے شیخ عبداللہ کو گرفتار کیا تھا اور پھر گزشتہ برس 5 اگست کو نئی دہلی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی اخلاقی برتری کو کھو دیا ہے۔ “ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے بھی وہی کیا ہے جو بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ کیا۔ لیکن ان مصنوعی اقدامات سے کشمیریوں کی خودمختاری کی جدوجہد نہیں رکے گی اور وہ اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھیں گے، جس کا مقصد پاکستان یا بھارت سے الحاق نہیں بلکہ خودمختار کشمیر ہے۔”
معروف کشمیری دانشور اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی سیاسی جماعت جموں کشمیر عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر پروفیسر خلیق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” اس کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو اور خطے کی عوام کو ہوگا کیونکہ جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ ہم مارے جائیں گے۔ اس فیصلے سے پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے کشمیریوں کی زمین چاہیے اور یہ کہ اسے کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں ورنہ وہ اس مسئلے کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو اس طرح نظر انداز نہیں کرتا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ” پاکستان کے حامی اس فیصلے کو شاید اچھا سمجھتے ہوں لیکن خود مختاری کے حامی اس فیصلے کو انتہائی منفی سمجھتے ہیں اور وہ اس کی بھرپور مذمت بھی کریں گے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی۔” بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے کشمیری قوم پرست تجزیہ نگار طاہر مجید لون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کشمیری قوم پاکستان کے اخلاص کو شک کی نظر سے دیکھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “اس فیصلے کے بعد کشمیر کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی کشمیری عوام مسئلے سے باہر ہوگئے ہیں اور یہ مسئلہ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان رہ گیا ہے۔ اس سے پاکستان کے عزائم بھی سامنے آگئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان آزاد کشمیر کو ہڑپ کر جائے گا اور عملی طور پر اسلام آباد وہی کرے گا، جو نئی دہلی نے کیا ہے۔”