کیا کوئی وزیراعظم صرف ایک سال میں اپنے ملک کی تباہ حال معیشت کو سنبھال کر ترقی کے راستے پر ڈال سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں ہے۔ کیا چار جماعتوں کی مخلوط حکومت کا وزیراعظم کوئی ایسا بڑا فیصلہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہمسایہ ملک کے ساتھ کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی دشمنی اچانک دوستی میں بدل جائے؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں نہیں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی وزیراعظم تبدیلی کا وعدہ کرکے آئے اور صرف ایک سال میں یہ تبدیلی صرف اس کے اپنے لوگوں کو نہیں بلکہ بیرونی دنیا کو بھی نظر آنے لگے اور چین سے لے کر برطانیہ تک سب اُسے داد دینے لگیں اور یونیسکو جیسا عالمی ادارہ اُسے امن انعام سے نواز دے؟ ان سب سوالات کا جواب ہاں میں ہے لیکن ایسا باصلاحیت وزیراعظم آپ کو پاکستان میں نہیں بلکہ ایتھوپیا میں ملے گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اپریل کے آخری ہفتے میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے اجلاس کے دوران سائڈ لائنز پر ایتھوپیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ابی احمد کے ساتھ ملاقات کی تو پاکستان میں عمران خان کے کچھ ناقدین نے اُن کا بڑا مذاق اُڑایا اور بڑے زہریلے انداز میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے وزیراعظم کی اوقات یہ رہ گئی ہے کہ اُسے ایتھوپیا کے وزیراعظم کیساتھ ملنا پڑتا ہے کیونکہ باقی سربراہانِ مملکت نے اُن کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔ صاحبانِ طنز شاید نہیں جانتے تھے کہ ایتھوپیا کے وزیراعظم ڈاکٹر ابی احمد نے صرف ایک سال میں ایتھوپیا جیسے غریب اور جنگ زدہ ملک کو صرف افریقہ میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ’’اُمید کی علامت‘‘ بنا دیا ہے اور اگر عمران خان اُنہیں اپنا ’’سیاسی پیر‘‘ بنا لیں تو ہو سکتا ہے اہلِ پاکستان کی مایوسیاں بھی کچھ کم ہو جائیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس خاکسار کو بھی چند ہفتے پہلے تک ڈاکٹر ابی احمد کے بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں تھا۔ پچھلے ماہ مجھے یونیسکو کی طرف سے ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی تو بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ کانفرنس ایتھوپیا میں کیوں ہو رہی ہے؟ اس سال یونیسکو کے گویلر موکانو پریس فریڈم ایوارڈ کے جیوری ممبر کی حیثیت سے ہمارے سامنے ایتھوپیا کے کسی گرفتار صحافی کی نامزدگی بھی سامنے نہیں آئی تھی۔ یونیسکو کے حکامِ بالا سے پوچھا کہ آپ ہمیں ایتھوپیا کیوں بلا رہے ہیں؟ ہمیں کہا گیا کہ 2019ء کا ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس دیکھ لیں، سب سمجھ آ جائے گی۔
2019ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ 2018ء کے پہلے کچھ ماہ تک ایتھوپیا دنیا کے اُن ممالک میں شامل تھا جن کو صحافیوں کیلئے جہنم کہا جاتا تھا۔ اپریل 2018ء میں ڈاکٹر ابی احمد ایک چار جماعتی مخلوط حکومت کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ ہزاروں سیاسی قیدیوں کے ساتھ وہ لوگ بھی رہا کر دیئے جو گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ بہت سے صحافی غداری کے الزام میں مقدمات بھگت رہے تھے، انہیں بھی رہا کر دیا گیا۔ کچھ اخبارات پر پابندی تھی، یہ پابندی ختم کر دی گئی۔ دو سو سے زیادہ ویب سائٹس بند تھیں، اُنہیں بھی کھول دیا گیا۔ ڈاکٹر ابی احمد نے بہت تیزی کے ساتھ سیاسی و اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا۔ پرانے سسٹم سے وابستہ کچھ طاقتور ریاستی اداروں نے اُنہیں روکنے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹر ابی احمد کی اصلاحات کو اتنی زیادہ عوامی تائید ملی کہ پرانا سسٹم بھی خاموش ہوگیا۔ 2018ء میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ایتھوپیا 150ویں نمبر پر تھا صرف ایک سال کے بعد 2019ء میں ایتھوپیا 110ویں نمبر پر آ گیا۔ ایک سال میں ایتھوپیا نے اپنی پوزیشن کو 40درجے بہتر بنایا۔ یہ ناقابلِ یقین تھا لیکن ہمیں یقین تو کرنا پڑا۔ سمجھ آ گئی کہ عمران خان نے بیجنگ میں ڈاکٹر ابی احمد کے ساتھ ملاقات کیوں کی؟ ہمیں بھی ایتھوپیا کے اس باصلاحیت لیڈر سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا اور ہم ایتھوپیا پہنچ گئے، جو پرانے زمانے میں حبشہ کہلاتا تھا۔ حبشہ کا ایک بادشاہ تھا جس کا نام نجاشی تھا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے دور میں کچھ صحابہ کرامؓ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے۔ کفارِ مکہ نے نجاشی کو تحفے تحائف دے کر ان صحابہ کرامؓ کو اپنی حراست میں لینے کی کوشش کی لیکن مسیحی بادشاہ نے مسلمانوں کو کفار کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نجاشی کے دیس میں آج ڈاکٹر ابی احمد کی حکومت ہے، جن کے والد مسلمان اور والدہ مسیحی ہیں۔ وہ 2010ء میں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کے رکن بنے۔ 2015ء میں دوبارہ الیکشن جیت کر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنائے گئے۔ اس دوران ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ بحران سے نکالنے کیلئے ایک چار جماعتی مخلوط حکومت نے ڈاکٹر ابی احمد کو وزیراعظم بنا دیا کیونکہ وہ مسیحیوں اور مسلمانوں کے علاوہ تمام اہم لسانی و نسلی گروہوں کیلئے قابلِ قبول تھے۔ اُنہوں نے ایک طرف ملک میں انسانی حقوق بحال کئے، دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ مل کر ارٹیریا کے ساتھ سرحدی تنازعات طے کئے اور پرانی دشمنی کو دوستی میں بدل دیا۔ ایتھوپیا کی حکومت نے ماضی میں چین سے بڑے بڑے قرضے لئے تھے۔ ڈاکٹر ابی احمد نے ان قرضوں پر نظر ثانی کرائی۔ دوسری طرف ان کی اقتصادی اصلاحات کو آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے بھی حمایت مل گئی۔ آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہونے پر یورپی سرمایہ کاروں نے بھی ایتھوپیا کا رُخ کر لیا اور اب ایک سال کے اندر عدیس ابابا میں جگہ جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ لگتا ہے اگلے کچھ سالوں میں عدیس ابابا افریقہ کا دبئی بن جائے گا۔ عدیس ابابا میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے کی کانفرنس میں برطانیہ کے وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ نے مغربی سرمایہ کاروں کی ایتھوپیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی اصل وجہ بیان کر دی۔ اُنہوں نے کہا کہ کرپشن جمہوریت کی بہت بڑی دشمن ہے۔ صاف ستھری جمہوریت کیلئے آزادیٔ صحافت بہت ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اور ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا تقابلی جائزہ لیں۔ اُن ممالک میں سب سے کم کرپشن ہے جہاں سب سے زیادہ آزادیٔ صحافت ہے۔ جو ریاست آزادیٔ صحافت کو تحفظ دیتی ہے وہ خود بخود کاروباری حضرات اور عالمی مالیاتی اداروں کیلئے باعثِ کشش بن جاتی ہے۔ یہاں یونیسکو کی طرف سے ڈاکٹر ابی احمد کو امن انعام اور برما کے دو بہادر صحافیوں کو گویلر موکانو ایوارڈ دیا گیا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے ڈاکٹر ابی احمد کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے عمران خان سے ملاقات کی، آپ اُنہیں بار بار ملیں اور بتائیں کہ پاکستان میں کرپشن ختم کرنا ہے تو میڈیا کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینا ہو گی۔