آئندہ عام انتخابات جب کبھی ہوں، اس سے قبل سندھ کی سیاست میں نئے سیاسی حقائق ابھر کر سامنے آسکتے ہیں۔ جس کے شاید فوری اثرات تو شائد مرتب نہ ہوں لیکن 1967میں ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے قائم کئے جانے کے بعد 1970کی دہائی سے سندھ میں سب سے بڑی سیاسی قوت پیپلز پارٹی کے لئے یہ یقیناً خواب غفلت سے بیدار ہونے کا اشارہ ہوسکتے ہیں۔
اب جبکہ عمران خان کی تحریک انصاف نے اندرون سندھ اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور سندھ کے شہری علاقوں میں بھی ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کے بعد اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کوشاں ہے ۔ اگر فوری یا آئندہ سال انتخابات ہوئے تو تحریک انصاف ہوسکتا ہے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے لیکن اگر اس نے سنجیدہ کوششیں کیں تو وہ پیپلز پارٹی کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔
عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کے بارے میں بڑا کھل کر بول رہے اور سندھ کے نوجوانوں کو کرپشن کے خلاف اپنا بیانیہ باور کرارہے ہیں، لیکن انہیں اپنی پارٹی میں مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل لیگ کے باقیات کے ہوتے ہوئے اپنا بیانیہ فروخت کرنا مشکل ہورہا ہے۔
انہوں نے یہ کہہ کر کہ محض کارکنوں کی مدد سے انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ خود اپنی ہی پارٹی رہنمائوں کو حیران کردیا ۔ اس طرح سے انہوں نے پارٹی میں جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی شمولیت کا دفاع کیا۔ عمران خان کو اس کا الزام نہیں جاسکتا۔ 21سال کے دوران انہوں نے سندھ میں معراج محمد خان جیسے اجلے کردار کی حامل شخصیات کو کھویا ہے۔ وہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زیادہ سرگرم یا مصروف رہے۔ سندھ میں ان کی تحریک انصاف اندرونی اختلافات میں الجھی رہی۔ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، عمران اسمٰعیل، علی زیدی اور فیصل واڈا نے سب کو ایک صفحے پر لانے کی بڑی کوشش کی لیکن پی ایس 114-کراچی میں ضمنی انتخاب کا نتیجہ اس کے لئے تباہ کن ہی ثابت ہوا۔
عمران خان اب شہری و دیہی سندھ دونوں جگہیں نئی شروعات کی کوشش کررہے ہیں۔ صورتحال سے نمٹنے کے لئے کمیٹی بھی بنا دی ہے جو شاہ محمود قریشی کی قیادت میں سابق وزیراعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی اور حلیم عادل شیخ پر مشتمل ہے۔
اب یہ دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا کہ انتخابات کے لئے کیاتحریک انصاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو ترجیح دے گی؟ اگر نہیں تو پھر کیا پیر پگارا کی قیادت میں گرینڈ اپوزیشن الائنس (جی ڈی اے) سے اتحاد کرے گی؟ سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولا پیپلز پارٹی کے لئے مسائل کھڑے کرسکتا ہے۔ جی ڈی اے بنیادی طورپر انتخاب جیتنے کی صلاحیت کے حامل رہنمائوں پر مشتمل گروپ ہے جس میں تین سابق وزرائے اعلیٰ ارباب غلام رحیم، غوث علی شاہ اور ممتاز علی بھٹو، جتوئیوں کی موجودگی، ایاز پلیجو کی عوامی تحریک، سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور پیپلز پارٹی کے منحرفین شامل ہیں۔ جس نے جی ڈی اے کو بھاری بھرکم اتحاد بنا دیا ہے۔ تاہم تحریک انصاف، ایم کیو ایم کے کسی دھڑے اور زیادہ اہم مذہبی جماعتوں کی عدم شمولیت سے خلا رہ جاتاہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی بعض مخصوص حلقوں میں پیپلز پارٹی کو حیران کرسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اندرون سندھ زیادہ مضبوط نہیں لیکن اگر متحدہ مجلس عمل کا احیاء ہوجائے تو شہری علاقوں میں اپنے حق میں نتائج دے سکتی ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اگر اس نے پاکستان سرزمین پارٹی یا تحریک انصاف سے اتحاد بنا لیا تو یہ اتحاد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کے لئے خطرہ بن جائے گا۔
سندھ کی سیاست میں دلچسپ داخلہ ملی مسلم لیگ کا ہوگا جو جماعت الدعوۃ کا سیاسی چہرہ ہے، لیکن اسے الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ این اے120-لاہور کے ضمنی انتخاب میں لبیک پارٹی پہلے ہی اپنے وجود کا احساس دلا چکی ہے۔ جہاں اس نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے امیدواروں سے زیادہ ہی ووٹ حاصل کئے۔ وہ اب این اے4- پشاور کے ضمنی انتخاب میں بہتر نتیجے کے خواہاں ہیں۔
سنی تحریک اور جے یو پی کی موجودگی میں لبیک کا کراچی میں داخلہ دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اگر تینوں اتحاد بنا لیں تو جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے دھڑوں کے لئے مشکل ہوجائے گی۔ لہٰذا سندھ کے انتخابی نتائج مرکز میں آصف زرداری کے گیم پلان کی کلید ہوں گے۔ زرداری سندھ میں بھرپور انتخابی کامیابی چاہتے ہیں تاکہ مرکز میں معلق پارلیمنٹ کی صورت سودے بازی کی پوزیشن میں ہوں۔
دیہی و شہری سندھ دونوں جگہ انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے جبکہ مردم شماری 2017 کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیاں آئندہ اپریل تک ممکن نہیں۔ لہٰذا انتخابات ایک سال کے لئے
موخر کئے جانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ ہی کرے گی۔