اسلام آباد(ویب ڈیسک) وزیراعظم ہائوس سے بڑی خبر آگئی، وسیع تر ملکی مفاد اور پانامہ لیکس ایشو کے تناظر میں اپوزیشن کی طرف سے داخل کی گئی قرارداد اور پی ٹی آئی کی پٹیشن کے سلسلے میں ایسٹبلشمنٹ اور اندرونی پریشر کے باعث فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے قریبی رفقا جن میں پرویز رشید اور فیملی کے لوگ شامل ہیں نے انہیں پہلے سے یہ مشورہ دے رکھا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو کر پارٹی کے معاملات سنبھالیں اور وزیر اعظم کیلئے اپنے بااعتماد وزرا میں سے کسی کا نام تجویز کریں۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے پانامہ ایشو پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ سب سے پہلے وزیر اعظم سے سب سے پہلے سپریم عہدے سے الگ ہونےکا مطالبہ کریگا۔ جس کے نتیجے میں انہیں گھر جانا ہی ہوگا اور بڑے نقصان سے بچنے کیلئے وزیر اعظم نے از خود ان ہائوس تبدیلی کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کارکنوں کی جانوں کے ضیا اور پولیس کے دھرنے کے شرکائ پر بے دریغ طاقت کے استعمال کی وجہ سے بھی میاں محمد نواز شریف کو خاصی تنقید کا سامنا ہے اور ملک کے ذمہ دار ادارے اس امر پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان کو ایسا حکم ہر گز نہیں دینا چاہیے تھا اور پی ٹی آئی وکلائ بھی عدالت میں یہ سوال اٹھائیں گے کہ جب عدالت نے راستے کھولنے کا حکم دے رکھا تھا تو دھرنا نہیں ہوا مگر راستے بلاک اور ریلی کے شرکا پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیوں کیا گیا۔
دھرنے کے شرکائ پر لاٹھی چارج کے دوران کالعدم تنظیموں کے اسلام آباد میں جلسے اور اشتعال انگیز تقریروں پر بھی حکومت تنقید کے زد میں ہے جو کہ دفعہ 144 کی کھلی خلاف ورزی تھی مگر حکومت نے نہ صرف انہیں سپورٹ کیا بلکہ ان کو پر امن قرار دے دیا جس سے سوال اٹھتا ہے کہ اگر سرل المیڈا کالعدم تنظیموں اور عسکریت پسندوں کا لنک فوج اور ذمہ دار اداروں سے جوڑتا ہے مگر انہی کالعد م تنظیموں کے حکومت کے ساتھ بھی تعلقات
کی بازبگشت کیوں سنائی دے رہی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف کے اسامہ لادن کے ساتھ روابط بھی ایک اوپن سیکرٹ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ جبکہ فوج کے بارے میں ایسی کوئی رائے نہیں۔ کیونکہ فوج کے ادارے عسکری بنک، فوجی فرٹیلائزر اور ڈی ایچ اے ، فوجی فائونڈیشن وغیرہ سب کے علم میں ہیں لہذا فوج کے کوئی بھی ادارے دنیا کی نظروں سے چھپائے نہیں گئے مگر پردہ داری صرف سیاستدانوں نے کی ہے اور اپنے پس پردہ دہشتگرد تنظیموں اور عسکری گروپوں کے ساتھ روابط کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔اس تناظر میں اب بات کھلی ہے تو یہ جائےگی دور تک۔ممکن ہے قربانی کے بعد سلسلہ دراز ہوجائے۔