یہ بات طے ہے کہ ہمارے حکمران قطعاََ نااہل ہیں۔اکثر صورتوں میں سفاکانہ حد تک بدعنوان بھی۔ لاہور اور سیہون شریف میں ہوئی دو وارداتوں کے بعد راحیل شریف کی یاد میں ہوئی ماتم کنائی بھی لیکن دانشورانہ بددیانتی ہے۔ یہ سینہ کوبی دہشت سے دہلے دلوں کو فروعات میں الجھانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ مقصد اس کوشش کاپا کستان میں پھیلے ہیجان کو مزید بڑھاوا دینا ہے۔
ہمارے دینِ کامل کی چند مبادیات کو اس ملک میں وحشت ونفرت کے لئے استعما ل کرنے والے گروہ قطعاََ قابلِ مذمت ونفرت ہیں۔کم از کم میں نے کبھی بھی انہیں ’’اپنے بھٹکے ہوئے بھائی‘‘ نہیں سمجھا۔ اپنی ریاست اور حکومتوں سے توقع یہی رکھی کہ وہ قوت واختیار کے بھرپور استعمال کے ذریعے ان کا خاتمہ کرے۔
یہ وضاحت کردینے کے بعد میں خود کو یہ اعتراف کرنے پر مجبورپاتا ہوں کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے وحشت پھیلانے والوں نے اپنی سوچ کے دفاع کے لئے جو دلائل تیار کئے ہیں وہ بہت سادہ اور کئی حوالوں سے متاثر کن بھی ہیں۔بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے ایک مؤثر حکمت عملی تیار کررکھی ہے۔اس کی بدولت وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ان کی جانب سے ہوئی ہر واردات ہمارے ریاستی بیانیے کا کھوکھلا پن بے نقاب کردیتی ہے۔ یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ شہریوں کی حفاظت کا بنیادی فریضہ ہماری ریاست تو ادا نہیں کر پاتی۔واردات ہوجانے کے بعد بھی مگر وہ اس قابل نہیں کہ مناسب علاج اور دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کرسکے۔ فی الوقت میرے اس کالم کا موضوع مگر ریاستی کوتاہیاں نہیں۔ ہمارے میڈیا پر حاوی وہ سوچ ہے جو لوگوں کو گمراہ کررہی ہے۔
نواز شریف اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے تو لوگوں نے توقع یہ باندھی کہ ان کی حکومت لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کرے گی۔ لوڈشیڈنگ پر قابو پانانسبتاََ ایک سادہ عمل تھا۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ بجلی پیدا کرنے والوں کے واجبات یک مشت ادا کرنے کے بعد مزید بجلی پیدا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حکومت یہ ہدف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہی۔ اس سوال کا جواب کسی اور کالم کے ذریعے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
دہشت گردی پر قابو پانا مگرایک پیچیدہ اور مشکل ترین ہدف تھا۔اس کے حصول کے لئے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے بجائے ضرورت اس بات کی تھی کہ امن وامان کو یقینی بنانے والے تمام ریاستی اداروں کو ہمارے سیاست دان یکسو ہوکر کوئی واضح گائیڈ لائنز دیں۔ایسے قوانین متعارف کروائیں جو دہشت گردوں کے لئے کڑی سزائوں کو یقینی بناسکیں۔
یہ سب کرنے سے قبل مگر اس حقیقت کا ایمان دارانہ اعتراف بھی انتہائی ضروری تھا کہ ’’افغان جہاد‘‘ کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے 1980ء کے آغاز ہی سے کچھ گروہوں کو ریاستی سرپرستی میں مسلح اور متشدد بناکر منظم کیا گیا تھا۔ ہمارے بنائے جن جب بوتل سے آزاد ہوئے تو ہمارے قابو میں نہ رہے۔ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتے تھے۔ ان کے خلاف ریاستی طاقت کے بھرپور استعمال کی بات چلی تو بے تحاشہ اجلاسوں میں جہاں سیاسی اور غیر سیاسی حکمرانوں نے دہشت گردی پر قابو پانے کی حکمت عملی بنانے پر غور کیا تو’سلیپرز خلیات‘کی بات ہوئی۔ ’واپس اڑانے‘‘کے تذکرے ہوتے رہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے اگرچہ فوری ضرورت فوجی قوت کے بھرپور استعمال کے ذریعے اس کے مراکز اور محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کی تھی۔
ایسی قوت کے استعمال کے لئے تعیناتی اور لاجسٹکس سے جڑے کئی معاملات کا ذکر ہوتا رہا جن سے نبردآزما ہونے کے لئے کچھ وقت درکار تھا۔شاید اسی تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’’بھٹکے ہوئے بھائیوں‘‘سے گفت وشنید کی بات چلی۔عسکری معاملات سے قطعاََ نابلد مجھ ایسے شخص کو بھی اگرچہ پوری طرح علم تھا کہ بوتل سے نکل کر بے قابو ہوئے جن کو مذاکرات کے منتر سے رام کیا ہی نہیں جاسکتا۔سوال صرف ’’کب‘‘ کا تھا۔
پشاور کے ’اے پی ایس‘پر ہوئے حملے نے بالآخر ’ابھی یا کبھی نہیں‘والا ماحول پیدا کردیا۔اس ماحول کو مگر اسلام آباد میں دئیے دھرنوں سے حواس باختہ ہوئی سیاسی قیادت مناسب انداز میں استعمال نہ کر پائی۔پیش قدمی یا ’پہل‘کا سارا عمل عسکری قیادت کی طرف منتقل ہوگیا۔
بطور ایک عام شہری کے میرا یہ مسئلہ کبھی نہیں رہا کہ ’پہل‘کس کے پاس ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں نے بے مثال جی داری کے ساتھ دہشت گردی کے مراکز اور محفوظ ٹھکانوں کو تباہ وبرباد کیا۔ سیاست دان تحفظ پاکستان جیسے قوانین بنانے پر مجبور ہوئے۔فوجی عدالتیں بھی قائم کرنا پڑیں۔ان سب کے اشتراک نے دہشت گردی کے مسئلے کو تقریباََ ماضی کا قصہ بنادیا۔ہمارے شہروں کی رونقیں لوٹنا شروع ہوگئیں۔امن وسکون دائمی نظر آنے لگا۔ ’واپس دھچکا‘کے امکانات مگر اب بھی معدوم نہ ہوئے تھے۔ میڈیا میں ان امکانات کا ذکر کرنا ہم نے ضروری ہی نہ سمجھا۔
عسکری ادارے کی اجتماعی تحسین کی بجائے تھینک یوراحیل شریف کا ورد کرتے ہوئے ہمارا میڈیا بلکہ یہ جاننے میں مصروف رہا کہ راحیل شریف کی میعاد ملازمت میں توسیع ہوگی یا نہیں۔ میعاد ملازمت میں توسیع کی یہ بحث ہم نے اس وقت بھی جاری رکھی جب راحیل شریف کے ہوتے ہوئے بھی کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے دو وارداتوں کے ذریعے وحشت ناک ’واپس دھچکا‘ہمارے سامنے نمودار ہونا شروع ہوگیا۔ یہ بات عیاں ہوگئی کہ شمالی وزیرستان سے نکل کر دہشت گردوں نے افغانستان کے ان علاقوں میں نئے مراکز اور محفوظ ٹھکانے بنالئے ہیں جنہیں افغان حکومت اور امریکی افواج نے 2011ء ہی سے فوجی حوالوں سے اہم نہ سمجھتے ہوئے ’ترک‘کردیا تھا۔ ہم سب کومعلوم وجوہات کی بناء پر افغان حکومت اور اس کے امریکہ جیسے سرپرستوں نے پاکستان سے نکالے دہشت گردوں کے نئے مراکز اور محفوظ ٹھکانوں کے سدبات کے لئے کچھ نہ کیا۔ اشرف غنی کو ’جی ایچ کیو‘بلانے کے بعد اس سے براہِ راست ملاقاتوں اور ٹیلی فون پر ہوئی مسلسل گفتگو کے ذریعے بھی راحیل شریف اپنی سفارت کارانہ صلاحیتوں کو اس ضمن میں کماحقہ استعمال نہ کر پائے۔ ہماری وزارتِ خارجہ اس ضمن میں ویسے ہی ناکارہ سمجھی جاتی ہے۔
بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ’واپس دھچکا‘۔ اس کی ذمہ داری فوج کی نئی قیادت کے سرتھونپنا بہت زیادتی اور ناانصافی ہے۔ جو عارضی امن نصیب ہوا تھا اس کا کریڈٹ صرف اور صرف راحیل شریف کو دینا بھی ہمارے عسکری ادارے کی اجتماعی توہین ہے۔ اپنے افسروں اور جوانوں کی اس جی داری کو فراموش ونظرانداز کردینا بھی جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردی کے پاکستان میں موجود مراکز اور محفوظ ٹھکانوں کو تباہ وبرباد کیا تھا۔
بنیادی سچ ہے تو صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔اس مرحلے کے امکانات ٹھوس حوالوں سے کئی ماہ پہلے سے نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔وقتی امن سے مسحور وشاداں ہوا ہمارا میڈیا مگر ان امکانات کا ذکر کرنے کا تردد ہی نہ کر پایا۔ حکمرانوں کو تلخ سوالات اُٹھاکر ان امکانات کے مقابلے کے لئے تیار رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
جنگ کے اس نئے مرحلے سے مؤثر طورپر نبردآزما ہونا فقط عسکری ادارے اور اس کی قیادت کی ذمہ داری نہیں ہے۔سیاست دانوں کو بھی باہمی اور فروعی اختلافات بھلاکر کوئی قابلِ عمل گائیڈلائن سوچنا ہوگی۔پولیس کوجدید ہتھیاروں اور تربیت کے ذریعے مزید منظم ومضبوط کرنا ہوگا۔ عدالتی نظام کو متحرک اور توانا بنانا پڑے گا۔ جنگ کے اس مرحلے میں گھٹیا پوائنٹ سکورنگ ایک قبیح فعل ہے۔ ماتم کنائی بھی منافقانہ ۔بنیاد ی مگر تلخ سوالات اٹھاتے رہنا ضروری ہے وگر نہ دائمی امن ہمیں ہرگز نصیب نہیں ہوگا۔بشکریہ نوائے وقت