لاہور (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ نے گواہوں اور جرح کرنے سے متعلق میشا شفیع کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے گواہوں کے بیانات اور جرح ایک ساتھ کرنے کی اجازت دے دی۔ گواہان کا بیان اور جرح کرنے سے متعلق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے گلوکار و اداکار علی ظفر کے وکیل کو ایک ہفتے میں گواہوں کے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم بھی دے دیا۔کیس کی سماعت کے دوران میشا شفیع کے وکیل نے عدالت سے گزارش کی کہ اگر اگلی سماعت پر جرح کے لیے تیاری نہ کر سکے تو انہیں ایک ہفتے کا وقت دیا جائے۔جس کے بعد عدالت نے میشا شفیع کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے کیس سے متعلق 9 گواہوں کے بیانات اور جرح ایک ساتھ کرنے کی اجازت بھی دے دی۔سپریم کورٹ نے میشا شفیع اور علی ظفر کو غیر ضروری درخواستیں دائر کرنے سے بھی روک دیا۔عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ تیاری مکمل ہونے کے بعد ایک ہی روز گواہان پر جرح مکمل کرنے کی کوشش کی جائے جبکہ میشا شفیع کے وکیل گواہوں پر جرح کی تیاری 7 روز میں مکمل کریں۔دوسری جانب عدالت عظمیٰ نے علی ظفر کے وکیل کو بھی 7 دن میں گواہوں کا بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ غیر ضروری التواء نہ دیتے ہوئے ٹرائل جلد مکمل کرے۔اس دوران میشا شفیع کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ گلوکارہ علی ظفر کی جانب سے پیش کردہ تمام گواہوں کو نہیں جانتی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب علی ظفر کے ملازمین ہیں۔البتہ علی ظفر کے وکیل سبطین ہاشمی نے میشا شفیع کے وکیل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پیش کردہ کوئی بھی گواہ علی ظفر کا ملازم نہیں۔جب جسٹس فائز عیسیٰ نے علی ظفر کا میشا شفیع کی درخواست پر بنیادی اعتراض جاننے پر استفسار کیا تو ان کے وکیل نے بتایا کہ قانون کے مطابق گواہ کا بیان اور جرح ایک ہی دن ہوتی ہے۔البتہ جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بیان اور جرح ایک دن ہونے کا اختیار عدالت کا ہے۔اس موقع پر میشا شفیع کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اگر گواہوں کی فہرست مل جائے تو وہ ایک دن میں جرح کر لیں گے۔جس کے بعد عدالت نے حکم دیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق مقررہ وقت میں ٹرائل مکمل کیا جائے۔دونوں کے درمیان تنازع اپریل 2018 میں اس وقت سامنے آیا جب میشا شفیع نے علی ظفر پر ایک ٹوئٹ میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ علی ظفر نے انہیں ایسے وقت میں جنسی طور پر ہراساں کیا جب وہ 2 بچوں کی ماں اور معروف گلوکار بھی بن چکی تھیں۔تاہم علی ظفر نے ان کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیا تھا۔بعد ازاں میشا شفیع نے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کی محتسب اعلیٰ میں درخواست بھی دائر کی تھی اور اس کے جواب میں علی ظفر نے بھی گلوکارہ کے خلاف 100 کروڑ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔اور دونوں کا یہی کیس لاہور کی سیشن کورٹ میں زیر سماعت ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کو تین ماہ کے اندر گواہوں پر جرح کے بعد فیصلہ سنانے کی ہدایت کر رکھی ہے۔چند دن قبل سماعت میں پیش ہونے کے بعد علی ظفر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ میشا شفیع نے انہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا۔علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع پر منظم منصوبہ بندی کے الزامات لگائے جانے کے بعد گلوکارہ نے علی ظفر کو 200 کروڑ ہرجانے کا نوٹس بھجوایا تھا اور ان سے 15 دن کے اندر معافی مانگنےکا مطالبہ کیا تھا۔علاوہ ازیں میشا شفیع نے گواہوں سے جرح کے معاملے پر سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت عظمیٰ نے 9 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کے بیان ریکارڈ اور جرح ایک ساتھ کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔