کوروناوائرس اومی کرون کے نئی ویریئنٹ کا انکشاف ہوا جس کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ قسم پہلے سے زیادہ مہلک اور خطرناک ثابت ہوگی جس سے بچاو کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور ویکسیئن لگوانے کی ہدایت قومی سطح پر شروع کی جارہی ھے تاہم تحریک اعتماد سے ہٹائے جانیوالی عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے راہنماوں کاکہناہے یہ اقدام جلسے جلسوں سے عوام کو دور رکھنے کی سازش ہے عمران خان پہلے ہی اپنی حکومت کو گرائے جانے کو غیر ملکی سازش قرار دے کر عوام کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کرچکے ہیں,قومی ادارہ صحت نے (این آئی ایچ) پاکستان میں کورونا وائرس کے ویرینٹ ’اومیکرون‘ کے نئے سب ویرینٹ کے پہلے کیس کی تصدیق کردی ھے۔قومی ادارہ صحت نے ٹوئیٹ کے ذریعے بتایا کہ جینوم کی ترتیب کے ذریعے اومیکرون کے نئے سب ویرینٹ کو بی اے.2.12.1 کا نام دیا گیا ہے، جس کا ملک میں پہلا کیس سامنے آیا ہے۔این آئی ایچ نے کہا کہ اومیکرون کی اس نئی ذیلی قسم کی وجہ سے مختلف ممالک میں کووڈ 19 کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کووڈ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد آٹھ گنا زیادہ ہے۔ کورونا وائرس ایک وائرس گروپ ہے جس کے جینوم کی مقدار تقریباً 26 سے 32 زوج قواعد تک ہوتی ہے۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی کورونا وائرس کو (COVID-19) کا نام دیا گیا پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر (این سی او سی) کو دوبارہ بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔وزیراعظم نے کورونا وائرس کے اومی کرون ویریئنٹ کی نئی ساخت کے کیسز سامنے آنے پر وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات کرنے والے ادارے این سی او سی بحال کرنے کی ہدایات جاری کی ھیں۔ وزارت صحت سے پاکستان میں کوروناوائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کی موجودہ صورت حال سے متعلق رپورٹ بھی طلب کی گئی ہے۔کورونا وائرس کے اومی کرون ویریئنٹ کی کچھ ذیلی اقسام بھی سامنے آئی ہیں۔ ماہرین اومی کرون سے بچاؤ کے لیے کم و بیش وہی احتیاطی تدابیر تجویز کرتے ہیں جو کورونا وبا کے آغاز میں متعارف کرائی گئی تھیں۔9
دسمبر 2021کو کراچی میں اومیکرون کا پہلا مشتبہ کیس رپورٹ ہواتھا. متاثرہ مریضہ کی عمر 57 سال تھی اور انہیں کرونا ویکسین نہیں لگی ہوئی تھی۔’اومیکرون تیزی سے پھیلتا ہے، جبکہ اس میں اموات کا تناسب کم ہے۔ جنوبی افریقہ سے آنے والی رپورٹس کے مطابق وائرس کی اس قسم سے زیادہ اموات رپورٹ نہیں ہوئیں۔‘متاثرہ خاتون کو کسی مقامی کیس کے ساتھ رابطے کے باعث اومیکرون ہواتھا.کیونکہ خاتون نے کہیں بھی سفر نہیں کیاتھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اومیکرون وائرس پہلے سے ہماری کمیونٹی میں موجود ہے۔وائرس سے متاثرہ خاتون کو ویکسین نہیں لگی تھی،کرونا وائرس کی نئی قسم یا ویرینٹ اومیکرون نومبر کے آخر میں براعظم افریقہ کے جنوبی ممالک میں پہلی بار سامنے آیا تھا، جس کے بعد کئی ممالک نے پھر سے سفری پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ابتدائی شواہد سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے.عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اومیکرون کو تشویش کے اعتبار سے انتہائی تیزی سے پھیلنے والے وائرس کی اس کیٹگری میں رکھا گیا ہےاومیکرون کے حقیقی خطرات ابھی تک نہیں سمجھے گئے لیکن ابتدائی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں اس کا دوبارہ مرض میں مبتلا کر دینے کا خطرہ زیادہ ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ جو کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہو گئے ہیں وائرس کی اس نئی قسم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اومی کرون کی علامات بہت ہی معمولی ہو تی ہیں۔ دنیا بھر کی طرح کووڈ 19 کا اومیکرون ویریئنٹ پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث مثبت کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں اومی کرون وائرس کی نئی ساخت کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لیا ہے اور فوری طور پر انسداد کورونا کے لیے بنائے گئے ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی بحالی کا حکم دیا ہے۔گزشتہ روز قومی ادارہ برائے صحت نے پاکستان میں جینوم کی ترتیب کے ذریعے سب ویرینٹ کی تصدیق کی تھی,قومی ادارہ برائے صحت کے مطابق نئے ویرینٹ کی وجہ سے مختلف ممالک میں کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
واضح رہےکہ این سی او سی ملک میں کورونا کی عالمی وبا پھیلنے کے بعد گزشتہ دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا تاہم پی ٹی آئی حکومت نے ملک میں کورونا کیسز کی شرح کم ہونے پر اپریل میں ادارے کو وزارت صحت میں ضم کردیا تھا۔قومی ادارہ صحت کا کہنا ہےکہ پاکستان میں اومی کرون کا پہلا کیس 13دسمبرکو رپورٹ ہوا تھا، ویکسینیشن اور ایس او پیز پر عملدرآمد بھی وبا کے خلاف مؤثر ہیں، تمام شہری کورونا کے خاتمےکے لیے ویکسینیشن مکمل کروائیں۔2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل میں چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے دنیا کو پوری طرح تبدیل کردیا تھا اب اس وائرس کا اب تک کا خطرناک ترین ویرینٹ بھی سامنے آگیا ہے جس نے دنیا میں ایک بار پھر ہلچل مچادی ہےماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ کا مشاہدہ کرنے کے بعد وہ حیران رہ گئے کیوں کہ انہوں نے اس سے قبل کورونا کی اتنی خطرناک قسم نہیں دیکھی۔ماہرین کہتے ہیں کہ وائرس جتنے زیادہ لوگوں میں پھیلتا ہے اس میں اتنی ہی زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، اب تک کورونا وائرس ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر چکا ہے جن کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا البتہ اسپائیک پروٹین میں ہونے والی تبدیلی اہم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وائرس کا نیا ویرینٹ وجود میں آتا ہے۔کورونا وائرس ایک عالمی وبا یا کسی کی سازش: حقیقت کیا ہے؟دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کورونا کو ایک سازش قرار دیتے ہیں جبکہ ایسے بھی ‘عظیم’ لوگ موجود ہیں جو اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والے تقریباً تمام ہی سائنسدانوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ وائرس قدرتی ہے اور اسے لیب میں تیار نہیں کیا گیا البتہ وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے متصاد آراء ہیں۔ ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ لیب سے حادثاتی طور پر کسی وائرس کا باہر آجانا خارج از امکان نہیں ہے،ساتھ ہی ایسے کوئی ٹھوس شواہد بھی موجود نہیں ہیں جو اس بات کی تردید کرسکیں کہ وائرس لیک نہیں ہوا۔کورونا کے حوالے سے جہاں بہت سے سازشی نظریات نے جنم لیا ان میں سے سب سے سرفہرست یہ تھاکہ مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے جان بوجھ کر اس وائرس کو پھیلایا ہے تاکہ اس کی ویکیسن لگانے کے بہانے انسانوں کے جسم میں چِپ لگا کر انہیں کنٹرول کیا جاسکے اور ان کی نگرانی کی جاسکے،اس کے علاوہ بل گیٹس پر وائرس کے ذریعے دنیا کی آبادی کو کم کرنے کی سازش کا الزام بھی لگایا گیا تو کسی نے کہاکہ وہ دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر ویکسین کی فروخت سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں کووڈ کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد آٹھ گنا زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق وبائی امراض کے اثرات کو سمجھنے کے لیے اضافی اموات کی پیمائش ایک لازمی جُزو ہے اور کئی ممالک میں ڈیٹا سسٹمز میں محدود سرمایہ کاری کی وجہ سے زیادہ تر اموات کی اصل حد اکثر پوشیدہ رہتی ہے۔ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سمیرا عاصمہ کا کہنا ہے کہ یہ نئے اندازے دستیاب ڈیٹا کا استعمال کرتے ہیں اور ایک مضبوط اور مکمل طور پر شفاف طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ دو برسوں میں متوقع تعداد سے 13 فیصد زیادہ ہے۔دوسری طرف عالمی طور پر کووڈ کے اعداد و شمار مرتب کرنے والی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کووڈ سے 62 لاکھ 47 ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں۔ پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کے مطابق چھ مئی 2022 تک 15 لاکھ 27 ہزار 956 مثبت کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ اس عرصے میں 30 ہزار 369 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق پاکستان میں شرح اموات دو فیصد رہی جبکہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق شرح اموات آٹھ گنا زیادہ رہی۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات یعنی 84 فیصد جنوب مشرقی ایشیا، یورپ اور امریکہ میں ہوئیں۔ اسی طرح تقریباً 68 فیصد زائد اموات عالمی سطح پر صرف 10 ممالک میں واقع ہوئیں ہیں۔ 24 ماہ کی مدت کے دوران 14 کروڑ 90 لاکھ اضافی اموات میں سے 81 فیصد متوسط آمدنی والے ممالک، 53 فیصد کم متوسط آمدنی والے ممالک اور 28 فیصد بالائی متوسط آمدنی والے ممالک میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد زیادہ تھی یعنی 57 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین مرنے والوں میں شامل تھیں۔ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مصر میں ریکارڈ کی گئی اموات سے 11 گنا سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، اس کے بعد انڈیا میں تقریباً 10 گنا زائد، پاکستان میں آٹھ گنا، انڈونیشیا میں سات گنا اور بنگلادیش میں پانچ گنا زائد اموات ہوئی ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ دو برسوں میں متوقع تعداد سے 13 فیصد زیادہ ہے۔دوسری طرف عالمی طور پر کووڈ کے اعداد و شمار مرتب کرنے والی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق کووڈ سے 62 لاکھ 47 ہزار کے قریب اموات ہوئی ہیں۔پاکستان کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کے مطابق چھ مئی 2022 تک 15 لاکھ 27 ہزار 956 مثبت کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جبکہ اس عرصے میں 30 ہزار 369 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے دعویٰ کیا ہے کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ دو برسوں میں متوقع تعداد سے 13 فیصد زیادہ ہے۔