تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)
بھارتی راجدھانی دہلی میں ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں آنے والے نتائج نے سب کوچونکا کر رکھ دیا ہے۔۔بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی امریکی صدر بارک اوبامہ کے حالیہ دورہِ بھارت کے بعد جس طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے ان انتخابی نتائج نے ان کی سپر میسی کا سارا نشہ ہرن کر دیا ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا منتخب وزیرِ اعظم ہونے کے ناطے وہ بے پناہ غرور اور تکبر کا شکار تھے اور خود کو جنوبی ایشیا کا چوہدری سمجھ رہے تھے لیکن ارون کجریوال نے انھیں جس بے رحمی سے زمین پر پٹخا ہے ناقابلِ یقین لگتا ہے۔کجریوال نے ایک ایسا چھکا مارا ہے جس کی گونج بھارتی سیاست میں سدا قائم رہیگی ۔نریندر مودی کی زبان اور افعال اس بات کا کھلا اظہار تھے کہ وہ اس علاقے کے سب سے بڑے قائد ہیں اور اسی زعم میں بھارت کو ہندوترا کا مسکن بنانا چاہتے ہیں حالانکہ بھارتی آئین اس کی صریح انداز میں ممانعت کرتا ہے۔
انسان جب خود کو عقلِ کل کا مالک سمجھنے لگتا ہے تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے اور کوئی غیبی ہاتھ انسان کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔بی جے پی نے عام انتخابات کے بعد کئی ریاستی انتخا بات میں اعلی کارکردگی کا مظا ہرہ کیا تھا اور خصوصی طور پر مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنے کی وجہ سے اس کے غرور کو بڑھاوا دینے میں ممدو معاون بنی تھی لہذا وہ اسی طرح کے انتخابی نتائج کی دہلی میں بھی امیدیں لگائے ہوئی تھی لیکن برا ہو عوامی اندازِ فکر میں تبدیلی کا کہ ان کے یہ سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ستر ممبران کی اسمبلی میں بی جے پی صرف تین نشستیں جیت پائی ہے جبکہ عام آدمی پارٹی ٦٧ نشستوں پر فتح کے پھریرے لہرا تی پھر رہی ہے ۔کانگریس اس سارے جھمیلے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے ہاتھ سوائے تاسف کے کچھ بھی نہیں آیا۔کرن بیدی جسے ارون کجریوال کے بالمقابل وزارتِ اعلی کا امیدوار بنا کر پیش کیا گیا تھا اس کا نام و نشان بھی نہیں مل رہا۔ کرن بیدی عالمی شہرت کی حامل خا تون ہیں اور ان کے کریڈٹ پر عوامی خد مت کے کئی تمغے سجے ہوئے ہیں لیکن نئی عوامی لہر کے سامنے ان تمغوں کی چمک عوام کو اپنی جانب مائل کرنے میں ناکام ہو گئی او یوں کرن بیدی کو ہز یمت سے ہمکنار ہونا پڑا۔اگر ہم پچھلے سال کے لوک سبھا انتخابات کا جائزہ لیں تو ان انتخابات میں عام پارٹی کا پورے ملک سے صفایا ہو گیا تھا۔
اسے صرف پنجاب سے چار پارلیمانی نشستوں پر کامیابی حا صل ہوئی تھی۔ان انتخا بات کے بعد عام آدمی پارٹی کا مستقبل کافی مخدوش ہو گیا تھا اور ارویند کجریوال کی قیادت پر بھی سوالیہ نشان پڑ گئے تھے۔ اسے تندو تیز تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ دہلی کی راجد ھا نی میں اسے کوئی بھی نشست حاصل نہیں ہو سکی تھی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ ارویند کجریوال دہلی پر اپنی گرفت کھو چکے ہیں۔کجریوال پر کانگریس کو ہروانے اور بی جے پی کا ایجنٹ ہونے کے طعنے بھی سننے پڑے تھے کیونکہ عام آدمی پارٹی نے کانگریس کے ووٹوں پر ہاتھ صاف کیا تھا کیونکہ آعام آدمی پارٹی کانگریس کی طرح مذہب پر سیاست کی مخالف ہے جس سے ان کے ووٹروں کی سوچ میں کافی اشتراک پایا جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کانگریس کو عام آدمی پارٹی کے قیام سے کافی زک پہنچی تھی لیکن سیاست میں ہر کوئی اپنا علم بلند کرتا ہے اور اس کے علم بلند کرنے سے کسے زک پہنچتی ہے اور کسے فائدہ پہنچتا ہے اس کی دردِ سری نہیں ہوتی۔بہر حال ان تمام رکاو ٹو ں کے باوجود ارویند کجریوال نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور ایک نئے اندازِ سیاست سے آگے بڑھنے کی راہ اپنائی۔اس کا اندازِ سیاست کانگریس اور بی جے پی سے بالکل مختلف تھا۔وہ عام آدمی کے روزمرہ کے مسائل اور ان کی تکالیف کو اجاگر کرنے کا عزم لے کر نکلے اور عوام نے ان کے اس انداز کو سراہا۔انھیں پچھلے سال کے لوک سبھا عام انتخا بات میں کامیابی تو نہ مل سکی لیکن عام آدمی پارٹی اک قومی جماعت کی حیثیت سے متعارف ضرور ہوئی اور پورے ملک سے کروڑوں ووٹ حا صل کئے۔اس کا سارے ملک سے امیدوار کھڑا کرنا ہی اس کی پہلی جیت تھی کیونکہ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ پورے بھارت میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو پورے ملک میں امیدوار کھڑے کرتی ہو۔بھارت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر علاقائی جماعتیں کافی مضبوط ہیں لیکن قومی سطح پر ان کا کو ئی وجود نہیں ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ اقتدار بی جے پی اور کانگریس میں تقسیم ہوتا رہتا ہے۔کسی زمانے میں یہی کیفیت پاکستان میں بھی تھی جس میں دو قومی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہواکر تی تھیں لیکن عمران خان کی تحریکِ ا نصاف کے بعد ایک نیا ماحول پیدا ہوا ہے جس نے ان دونوں جما عتوں کی مک مکائو پالیسی کو ننگا کیا ہے اور عوام میں کرپشن سے پاک سوسائٹی کی نئی سوچ کو جنم دیا ہے جس میں عوام کافی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اب پاکستان میں بھی روائتی سیاست کے دروازے دھیرے دھیرے مقفل ہوتے جا رہے ہیں اور عوام روائیتی سیاست سے کنارہ کش ہو تے جا رہے ہیں ۔کرپشن لوٹ مار،اقربا پروری، اور عدمِ مساوات کے جن مسائل کا بھارت کو سامنا ہے پاکستان بھی انہی مسائل سے دوچار ہے لہذا پاکستان میں تحریکِ انصاف اور بھارت میں عام آدمی پارٹی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور موجودہ دور کا تقاضہ یہی ہے کہ( پرانی سیاست گری خوار ہے۔۔زمیں میرو سلطاں سے بیزار ہے ) لہذا اب گھسے پٹے نعروں کی بجائے عوامی حاکیت کے نئے نعروں کے ساتھ سیاست کا بازار گرم کیا جائے۔میڈیا کے اس تیز ترین دور میں عوام کو مزید بیوقوف بنا نا ممکن نہیں رہا۔لوگوں میں اپنے حقو ق کا جو شعور بیدار ہو رہا ہے وہ پرانی سیاسی جماعتوں سے ان کی دوری کا سبب بن رہا ہے لوگ اب وراثتی سیاست اور خاندانی جبر کے تراشیدہ شکنجوں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور جو جماعت ان کے مسائل کا ادراک کرے گی اور انھیں ساتھ لے کر چلے گی وہ اسی کے دامن میں پناہ لیں گئے۔عام آدمی پارٹی کا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے عوام کے اندر حقوق کے اسی شعور کو مزید پختہ کیا ہے۔یورپ کی ترقی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے وراثتی اور خاندانی اندازِ سیاست سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے۔
وہاں پر اہل افراد کو زما مِ حکو مت سونپی جاتی ہے ۔ہمیں ان کے نظریات سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انھوں نے ریاستی امور کے لئے جو اصول وضع کئے ہیں اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ہر وہ سیاسی جماعت جس کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا دیر یا بدیر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔بی جے پی کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ہندوستان کو ہندوترا کا مرکز بنانا چاہتی ہے۔اس نے اسی نعرے پر انتخا بات میں حصہ لیا اور کامیابی سے اپنا دامن بھر لیا۔کانگریس سیکو لر سوچ کا حامل سیاسی جماعت ہے جو ساری اقلیتوں کے حقو ق کی علمبردار ہے۔اس نے کئی دہائیاں اسی نعرے سے سیاست پر اپنا سکہ جمائے رکھا۔کانگریس نے بنیادی غلطی یہ کی کہ اس نے قیادت کو نہرو خاندان میں مقید کر دیا۔اس نے ان مسلمان زعما کی قربانیوں سے صرفِ نظر کیا جھنوں نے مسلم لیگ سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں اپنی حمائت سے نواز ا تھا۔مسلمان جوکا نگریس کی فتح میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے تھے کانگریس سے دور ہٹتے چلے گئے کیونکہ کانگریس نے انھیں اقتدار میں حصہ دار بنانے سے گریز کیا۔کانگریس نے یہ سمجھا کہ مسلمان اس کی حمائت کے لئے مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس کانگریس کی حمائت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
کانگریس نے جس طرح مسلم جذبات کا استحصال کیا وہ ان کی کانگریس سے دوری کا باعث بنا۔اسی کشمکش میں عام آدمی پارٹی کا جنم ہوا جس نے ان دونوں راہوں سے جدا ایک نئی راہ اختیار کی۔اس نے ان لوگوں کو جھنیں معاشرے نے انتہائی حقارت سے ٹھکرا رکھا تھا انھیں حقوق دلوانے کا نعرہ بلند کیا۔ارویند کجریوال نہ تو خود سیاست دان ہیں اور نہ ہی ان کا پسِ منظر کسی بہت بڑے سیاسی خاندان سے ملتا ہے۔وہ ایک سادہ ،سچے اور کھرے انسان ہیں جو اقتدار کو ذاتی وجاہت کی خاطر نہیں بلکہ عوام کی امانت سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے پچھلے دورِ حکومت میں ہر قسم کے پروٹوکو ل کو جھٹک کر عوامی سیاست دان کی جو شناخت بنائی تھی دہلی کی حالیہ فتح اسی کا انعام ہے جسے قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)