تحریر: نجیم شاہ
ایک اور سال بیت گیا ہے۔ صرف ایک ہندسے کی تبدیلی کے ساتھ ہی پوری دنیا میں نئے سال کی تقریبات شروع ہو گئیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ عیسوی سال ہے یا ہجری، ایک نئی تاریخ کا باب کھل چکا ہے۔ عیسوی سال کی بنیاد سورج کی گردش پر ہے جبکہ ہجری کلینڈر چاند کی گردش کے تابع ہوتا ہے۔ دونوں کلینڈروں میں ایک سال کے دوران تقریباً گیارہ دِن کا فرق پڑ جاتا ہے اور تینتیس برسوں میں یہ فرق بڑھ کر ایک سال کے برابر ہو جاتا ہے۔ جب بھی نیا سال آئے تو دل میں نئے ارادے اور آنکھوں میں آنے والی زندگی کے خواب سج جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر نیا سال نئی اُمیدیں لے کر آتا ہے۔
صرف ہندسوں میں ایک ہندسہ بدلتا ہے تو دنیا بھر میں سالِ نو کا ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا واقعی ہندسے بدلنے سے حالات بھی بدل جاتے ہیں؟ وہی سورج ہوگا جو گزرے سال کے آخری دن ڈوبا تھا، وہی لوگ ہوں گے، وہی حالات اور سوچیں ہوں گی۔ بس خوشی منانے کا ایک موقع مل جاتا ہے، ورنہ سارے دن عام سے ہوتے ہیں اور میرے جیسے جو نئے سال کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ نیا ٹائم ٹیبل بنائیں گے، زندگی میں جو بے ترتیبی ہے وہ اگلے سال ٹھیک کرینگے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایسے ادھورے خواب ہیں جو ہر سال ظاہر ہو جاتے ہیں، لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوتا اور چند دن بعد دوبارہ وہی روٹین شروع ہو جاتی ہے۔
بحیثیت قوم ہم صرف ایک نئے سال میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہمارا ہر نیا سال غم سے شروع ہو کر قربانی پر ختم ہوتا ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی نیو ایئر نائٹ کی محفلیں جمتی ہیں اور ہیپی نیو ایئر کی مبارک بادیں دی جاتی ہیں، لیکن ہرجشن دراصل بالادست طبقات کے اَلمناک استحصال سے غریبوں اور محنت کشوں کی بربادی کا ایک تماشا ہوتا ہے۔ ہر آنے والا سال اس دُنیا کی وسیع تر آبادی کے لیے مزید عذابوں اور اَذیتوں کا پیام بن کر آتا ہے، کیونکہ یہ سال اور وقت جن سماجی نظاموں میں سے گزرتے ہیں وہ ایک اقلیتی حکمران طبقے کی دولت، مراعات اور عیاشیوں کو اکثریت کے خون، آنسو اور پسینے سے نچوڑ مہیا کرتے ہیں۔ درحقیقت نئے سال میں نیاپَن کچھ نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے۔
دن رات، زمین آسمان سب کچھ وہی ہے، اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں۔ جس طرح نئے سال میں نیاپَن کچھ نہیں، اسی طرح پچھلا سال بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا بلکہ ظلم و جبر کی اِنتہا کا سال تھا، قتل و غارت گری کے نئے انداز کا سال تھا، فحاشی و عریانیت کے پھیلائو کا سال تھا، مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کے ساتھ کھلواڑ کا سال تھا، عوام کے ساتھ حکمرانوں کی دورُخی کا سال تھا، کبھی رَگڑا تو کبھی ووٹ ڈالنے کا سال تھا۔ پچھلے سال بھی ہم غلام تھے اور اِس سال بھی غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کل بھی اِنصاف نہیں مِل رہا تھا اور آج بھی ہم اِنصاف کے متلاشی ہیں۔ گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا۔
بحیثیت قوم ہم نے اِتنا کچھ کھویا کہ شمار کرنا مشکل ہے۔ گزرے سال سیاسی، معاشی، ثقافتی اور اَدبی غرض ہر شعبے میں بے شمار تبدیلیاں ضرور آئی ہوں گی، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وطن سے دُور رہ کر بھی سکون نہیں اور وطن میں رہ کر بھی ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے۔ کتنا عجیب لگتا ہے جب ہر کوئی اپنے آس پاس موجود لوگوں کو مشتبہ نظر سے دیکھتا ہے۔ جب اخبار اُٹھاتے ہوئے، خبریں سُنتے ہوئے اور کسی کا فون آتے ہی بے اِختیار منہ سے ”خدا خیر کرے” نکلتا ہے۔ جس جانب نظر جاتی ہے خاموشی ہی خاموشی دِکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف جاڑے کا سماں، جس سے بات کرو خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ دوست دوست سے خوفزدہ، پڑوسی پڑوسی سے نالاں، کوئی بھی کسی سے خوش نہیں۔
عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے چکر میں دَر دَر بھٹک رہے ہیں پھر بھی زندگی رواں دواں ہے اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھُوٹا۔ جس طرح گزرا سال بے تحاشا پریشانیوں اور دُکھوں کا سال رہا، اسی طرح اس نئے سال سے بھی کوئی خاص اُمید نہیں لگانی چاہئے، لیکن اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ استحصال صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔
جب کل اور آج میں کوئی خاص فرق دِکھائی نہیں دیتا تو پھر ہم آنے والے سال سے اِتنی اُمیدیں کیوں لگاتے ہیں؟ اگر ان سوالات کے جوابات مِل جائیں تو پھر ایک نئے عزم کے ساتھ تہیہ کرلیں کہ ہم آج سے ہی جھوٹ، مکر، فریب، غیبت، بخیلی، تنگ دلی، فضول گوئی، بے صبری، خودنمائی، خود ستائی، دروغ گوئی، وعدہ خلافی، راز کی سبوتاژی، دشنام طرازی، لڑائی جھگڑے، آبروریزی، ایذا رسانی، نفرت، غصہ، احساسِ برتری، احساسِ کمتری، تخریب کاری، چغل خوری، حرام کاری، کام چوری، سود خوری، ظلم، بدعہدی، خیانت، سنگ دلی، تنگ نظری، چھچھورپن، تلون مزاجی، پست حوصلگی، بزدلی، بدتمیزی، فرض ناشناسی، بے وفائی، غیر ذمہ داری، نااتفاقی، بدخواہی، ناہمواری، بدی، قتل، ڈاکہ، جعل سازی، رشوت خوری، بدزبانی، بہتان تراشی، فساد انگیزی، تکبر، ہٹ دھرمی، حرص، ریاکاری اور منافقت جیسی برائیوں کا اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرکے نظم وانضباط، تعاون، امدادِ باہمی، محبت، اعتبار، وسعت نظری، سچائی، نیکی، انصاف، پاسِ عہدی، امانت داری، ہمدردی، رحم، فیاضی، فراخ دلی، صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، خودداری، شائستگی، ملنساری، فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی، احساس ذمہ داری، والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسن سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری، مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت، پاک دامنی، خوش گفتاری، نرم مزاجی، خیر اندیشی، راست بازی، کھرا پن، فراخ دلی اور اَمن پسندی جیسی اچھائیوں کو اپنائیں گے، ورنہ ہر نیا ہجری یا عیسویں سال صرف ہندسوں کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔
تحریر: نجیم شاہ