سیاستدانوں کی طرف سے وعدوں کا اعلان کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن شہباز شریف اس میدان میں ہمیشہ پہلی پوزیشنپر رہتے ہیں۔ کبھی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا وعدہ تو کبھی مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ۔ الیکشن سے پہلے عوام کو نئے نئے وعدوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر ہوتا ہے۔ جس سیاستدان کا حلقہ جتنا چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے وہ اس کے مطابقوعدے کرتا ہے۔ یہ وعدے نکاسی آب کی نالی کو پختہ کرنے سے شروع ہوتے ہیں اورپھر لوڈشیڈنگ، گیس، زرعی ترقی،ملک کا لوٹا ہوا خزانہ سوئس بینک سے واپس لانے تک کے وعدے کردیئے جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے شہباز شریف نے اپنے دورہ کراچی میں شہرِ قائد کو نیویارک جیسا بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس سے پہلے وہ لاہور کو پیرس بنانے کا بھی وعدہ کرچکے ہیں۔ پیرس اور نیویارک کی طرز پر پاکستان کے شہروں کو بنانے کے وعدے کی وجہ کیا ہے؟ وجہ جو بھی ہو، اس طرح دوسرے ملکوں کے شہروں کی مثال دے کر ہم ایک بات کا اقرار تو کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک شہر بھی ایسا نہیں جسے ماڈل کے طور پر پیش کرکے اس کی مثال دی جاسکے۔
دنیا کے بہت شہروں کو ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے مگر شہباز شریف نے نیویارک اور پیرس میں ایسا کیا دیکھا ہے جو وہ لاہور اور کراچی میں لانا چاہتے ہیں؟ اکثر اپنے خطاب میں کہتے نظر آتے ہیں کہ میں نے لاہور کو پیرس بنادیا ہے۔ چلیں ایک نظر پیرس بننے والے لاہور پر ڈالتے ہیں۔
شہباز شریف کی طرف سے اب تک لاہور کی ترقی میں کیے جانے والوں کاموں میں صرف سڑکوں اور پلوں کی تعمیر ہے۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کا سبب بھی یہ سڑکیں ہیں۔
کتنے نئے کالج، یونیورسٹیز، اسپتال تعمیر کیے گئے؟ اس کا جواب نفی میں ہی ملے گا۔ سرکاری محکموں کی صورت حال بہتر بنانے کے بجائے ان کے کام پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دیئے گئے اور ان کمپنیوں کے مالک بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ خود ہی ہیں۔ اسپتالوں کی صورت حال دیکھنے چیف جسٹس پہنچتے ہیں تو کسی ایک مریض کی طرف سے تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔
جنسی درندگی کے واقعات رکنے کا نام نہیں لیتے۔ اسٹریٹ کرائم سے لے کر بینک ڈکیتی کے واقعات تک ہر روز اخبارات کی شہ سرخیاں ہوتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی کےلیے خود چیف جسٹس کہہ رہے ہیں کہ موجودہ عدالتی نظام میں انصاف کی جلد فراہمی ممکن نہیں۔
شہباز شریف کے پیرس میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے 100 سے زائد لوگوں کو گولیاں مار کر 14 افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے مگر کسی قاتل کو گرفتار تک نہیں کیا جاتا۔ چند بڑی شاہراہوں کے علاوہ باقی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ جنازے گندے پانی کی وجہ سے جوہڑ کا منظر پیش کرتی گلیوں سے گزرتے نظر آتے ہیں۔ اسپتالوں میں مریض دوائی تو دور کی بات، ڈاکٹر سے وقت لینے کےلیے پورا پورا دن گزار دیتے ہیں۔ پیچیدہ امراض میں کئی کئی ماہ تاریخ ہی نہیں ملتی۔ یہ ہے شہباز شریف کے پیرس کی ایک جھلک!
لاہور کو پیرس بنانے کے بعد بھی روٹین کا میڈیکل چیک اپ کرانے شہباز شریف لندن کا رخ کرتے ہیں۔ ان کی تمام فیملی اور سیاسی کاروبار کے پارٹنر بھی علاج کےلیے لندن کا سفر کرتے ہیں۔ پنجاب میں 35 سال حکومت کرنے کے بعد ایک ایسا اسپتال نہیں بناسکے جس میں ان کے روٹین کے میڈیکل ٹیسٹ ہوسکیں۔ اب جب کہ 5 سال بعد ایک بار پھر وعدے اور دعوے کرنے کا موسم آگیا ہے تو شہباز شریف عوام سے یہ وعدہ کیوں نہیں کرتے کہ ہم لاہور، کراچی یا کسی ایک شہر کو ایسا بنا کر دکھائیں گے کہ سیاستدانوں کو علاج کےلیے لندن نہیں جانا پڑے گا۔
ایک سال میں ان سیاستدانوں کے لندن والے علاج پر جتنا خرچہ ہوتا ہے، اس سے پاکستان میں ہی لندن والا اسپتال بن سکتا ہے۔