انسان ہمیشہ سے ہی تبدیلی پسند رہا ہے۔ زیادہ وقت تک ایک ہی کام کرتے یا ایک ہی ماحول میں رہتے رہتے اکتا جاتا ہے۔ سیاست کا شعبہ ہو یا عام زندگی کا، حکومت ہو یا صحافت ہر شعبے میں ہر زمانے میں تبدیلی آتی رہی ہے اور آتی رہتی ہے۔ اب دیکھ لیں جمہوریت کو بھی ہر چار یا پانچ سال کے بعد تبدیلی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تبھی تو عوام کے اندر سے پانچ سال کا غصہ نکالنے کے لئے سیفٹی والو لگایا جاتا ہے یعنی الیکشن کرائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو صرف ایکسٹرا پریشر نکالنے کے لئے ہی الیکشن ہوتے ہیں۔ یا پھر بادشاہ گر ناراض ہو جاتے ہیں تبھی حکومت تبدیل کر دی جاتی ہے۔ اسی یکسانیت کے مارے بہت سے لوگ دوسری مرتبہ شادی کا پنگا بھی لے بیٹھتے ہیں کہ پہلی سے بہت تنگ آ جاتے ہیں مگر جب دوسری کا سامنا کرتے ہیں تو وہاں بھی وہی یکسانیت۔ وہی کام وہی بک بک جھک جھک بالکل پاکستانی جمہوریت کی طرح، تو پھر خود ہی پکار اٹھتے ہیں کہ اس سے تو پہلی اچھی تھی، مصیبت تو سنگل تھی۔ اور ساس بھی ایک ہی تھی۔ اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لائی جاتی ہے۔ اسے آپ ایک سیاسی جماعت کی انگلی سے آنے والی تبدیلی ہرگز نہ سمجھیں۔ انگلی سے تبدیلی کے مقابلے والے ذرا سخت جان لگتے ہیں وہ انگوٹھے سے تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ بہر حال ان باتوں سے ہٹ کے اور بچ کے ہم جو بات کرنے جا رہے تھے وہ تھی یکسانیت سے اکتاہٹ۔
زمانہ قدیم سے حاکم عوام کو مطمئن کرنے یعنی بیوقوف بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے ڈھکوسلے ایجاد کرتے ہیں کہ یہ بیچارے لوگ دام فریب میں آ ہی جاتے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے سے یہ رواج رہا ہے کہ کسی بھی مسئلہ کے حل کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی جاتی تھی۔ جب کمیٹی کی کارکرگی سامنے آنے لگی کہ اس نے کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچنا تو پھر اس کا نام بدلنے کی ضرورت پیش آئی۔ بڑے بڑے دان سر جوڑ کر بیٹھے کہ اس کمیٹی کا توڑ پیدا کریں۔ تو پھر اسی کمیٹی کو کمیشن میں تبدیل کر دیا گیا۔
کام دونوں کا ہی ایک ہی تھا مگر نام الگ تھا۔ دونوں کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی اور یہی کام انہیں تفوی کیا جاتا ہے۔ تاکہ متعلقہ پارٹیوں کو کافی وقت کے لئے دھوکے میں رکھا جا سکے۔
اسی طرح سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے جب دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے تو اسے بھی مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ یہ نام پارٹی سربراہ کی شخصیت کے حوالے سے بھی بنتا ہے اور تاریخ میں جاری اقدار کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
پہلے پہل دائیں بازو اور بائیں بازو کا ذکر ہوا کرتا تھا۔ تبدیلی والے بائیں بازو کو لوگ سمجھے جاتے تھے۔ جب بائیں والے اور دائیں والے کافی نفع اٹھا چکے اور عوام کو پتہ چل گیا کہ یہ مولیوں کی طرح صرف عوام کو لڑا کر اپنی دکان چمکاتے ہیں تو انہوں نے اپنے نام بدلنے کا سوچا۔
یہ دھڑے پھر حکومت مخالف اور حکومت نواز بنے۔ اب ان میں سے جو پارٹی چھوڑ جاتا اسے پہلے پہل غدار یا وقت کا پجاری کہا جاتا جب یہ نام بھی عام ہو گئے تو ایک نئی اصطلاح میدان میں آگئی۔ اور وہ تھی لوٹا۔ لوٹا اب بھی رائج ہے سکہ رائج الوقت کے ساتھ ساتھ۔
اس وقت کچھ اور ٹرمز یعنی اصطلاحات میدان میں آ چکی ہیں اور ایک پارٹی تو ہر کام کے لئے یہی اصطلاح استعمال کر رہی ہے۔ کوئی پارٹی تبدیل کرے وکٹ گر گئی، کوئی نا اہل ہو جائے تو وکٹ گر گئی، کوئی الیکشن ہار جائے تو وکٹ گر گئی۔ اب نوبت یہاں تک پہنچا دی گئی ہے کہ اگر کوئی کسی کو چھوڑ دے یا طلاق لے دے لے تو اس کے لئےبھی وکٹ ہی گراتے ہیں بے شک اگلے بیچارے پر بجلی ہی کیوں نہ گر گئی ہو، یہ وکٹ گرا کر ہی خوش ہو لیتے ہیں۔
بات کمیٹی اور کمیشن سے آگے نکلی تو پھر جے آئی ٹی بننے لگی۔ اب پاکستان کے ہر مسئلے کا حل جے آئی ٹی کے پاس ہے۔ خارجہ تعلقات سے لیکر گھریلو لڑائی جھگڑوں تک کے لئے جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے۔
اب یہ ٹرم بھی زبان زد عام ہو چلی ہے اور مفکرین ایک نئے نام کی تلاش میں ہیں کہ جلد ہی اس کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی۔