لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں کس قدر غیر ذمہ دارانہ صحافت کی جارہی ہے اسے سمجھنے کے لیے بشری بی بی کا 27 ستمبر 2018 کو ندیم ملک صاحب کودیا گیا انٹرویو ہی کافی ہے۔آئیے صحافیوں کے کالم اور بشری بی بی کے انٹریو کا جائزہ لیتے ہیں۔ایک کالم نگار نے 23 ستمبر کو اپنے کالم میں ذکر کیا کہ ”
نامور کالم نگار میاں عمران احمد روزنامہ نئی بات میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن جمیل کو جگر کی بیماری ہوئی تو جگر کی تبدیلی کے لیے امریکہ میں پورا ایک سال مقیم رہے، لیکن ویٹنگ لسٹ بہت لمبی تھی۔ ایک روز بشری بی بی سے بات ہوئی تو احسن جمیل نے بتایا کہ فہرست بہت لمبی ہے دعا کریں۔ بی بی بشری عمران نے دوسرے ہی دن جوابی فون کیا اور کہا کہ حضرت فاطمہ سے درخواست کی ہے اور انھوں نے آپ کے لیے دعا قبول کر لی ہے۔ احسن جمیل کے بقول انھیں فاطمہ نامی خاتون نے فون کر کے کہا فورا اسپتال پہنچیں ۔ آپ کا جگر ٹرانسپلانٹ کرنا ہے”۔ بشری بی بی نے انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ یہ اتنی غلط خبر ہے کہ میں خود شیشے میں کھڑی ہو کر اپنے آپ سے سوال کر رہی تھی کہ اچھا میں بی بی فاطمہ سے بات کر سکتی ہوں۔یہ ہو ہی نہیں سکتا۔مجھے نہیں سمجھ آتا کہ یہ خبریں کیوں لوگ دے رہے ہیں”۔ ایک اور نامورکالم نگار نے ایک سال قبل لکھا کہ ”اطلاع یہ ہے کہ بشری مانیکا نے خاور فرید کو بتایا کہ‘‘مجھے نبی اکرم کی زیارت ہوئی۔آپ نے مجھے حکم دیا کہ تم خاور سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کر لو”
بشری بی بی نے انٹرویو میں کہا کہ” مجھے کبھی بھی نبی کریم کی اس طرح زیارت نہیں ہوئی کہ انھوں نے مجھے حکم دیا ہو کہ تم خان صاحب سے شادی کر لو۔” اس کے علاوہ ایک سینیر صحافی نے عمران خان اور بشری ٰ بی بی کی شادی سے متعلق ’’انکشاف‘‘ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بشری ٰ بی بی نے اپنے پہلے شوہر خاور مانیکا سے طلاق لینے کے بعد عدت پوری کیے بغیر ہی عمران خان سے نکاح پڑھوا لیا تھا۔لیکن بشری بی بی نے انٹرویو میں بتایا کہ انھوں نے عدت پوری ہونے کے سات مہینے بعد عمران خان سے شادی کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میرے سابق شوہر مذہبی رجحان رکھتے تھے اس لیے انھوں نے اسلامی طریقے سے میری عدت اپنے ہی گھر میں پوری کروائی اور عدت پوری ہونے کے بعد میں ان کے گھر سے باہر آئی۔ میرے لیے تینوں نامور صحافیوں کے دعوں کا غلط ہونا تکلیف دہ عمل تھا لہذااس انٹرویو کو سننے کے بعد میری تینوں صحافیوں سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور ان سے غلط خبر دینے پر معذرت کی درخواست کی۔ بشری بی بی اور حضرت فاطمہ کے مابین گفتگو کا دعوی کرنے والے کالم نگار نے فرمایا کہ میرا کالم نوے فیصد درست ثابت ہوا ہے۔ لیکن حضرت فاطمہ سے متعلق لکھا گیا
واقعہ مجھے سکہ راوی حسن جمیل صاحب نے خود سنایا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ وہ واقعہ غلط ثابت ہوا ہے۔ میں اپنی غلطی کو تسلیم کرتا ہوں اور اس حوالے سے آج کالم میں معذرت لکھ رہا ہوں۔اگلے دن 29 ستمبر کو کالم نگار صاحب نے اپنی خبر غلط ہونے کے حوالے سے کالم میں معذرت کر لی۔جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعدمیں نے دوسرے کالم نگار سے معذرت کرنے کی درخواست کی جنھوں نے دعوی کیا تھا کی بشری بی بی کو نبی پاک نے عمران خان سے شادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ان سے کی گئی درخواست بحث میں بدل گئی۔انھوں نے فرما یا کہ اگر یہ خبر غلط تھی تو بشری بی بی کو اس کا خیال ایک سال بعد کیوں آیا؟ اور دوسرا یہ کہ اگر میں غلط ہوں تو بشری بی بی مجھے عدالت لے جائیں۔لیکن میرا سوال یہی تھا کہ آپ کے پاس اپنے کالم کی سپورٹ میں کیا کوئی ثبوت ہے؟ جس کا کوئی جواب نہیں تھا۔اس کے بعدعدت کی خبر دینے والے رپورٹر سے بات ہوئی۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ رپورٹر صاحب اپنی دی گئی خبر پر قائم ہیں اور معذرت کرنے کی حامی نہیں بھری۔لیکن میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان سے گفتگو کے دوران میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
ان صاحب کے پاس عدت کے الزام کو ثابت کرنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔ آپ ان تمام حقائق کو ذہین نشین کریں اور میڈیا پر چلتی ہو ئی خبروں اور حقیقت کا موازنہ کریں تو آپکے پیروں تلے زمین نکل جائے گی کہ اگر بشری بی بی انٹرویو میں حقائق نہ بتاتیں تو عوام مرتے دم تک بشری بی بی اور عمران خان کے بغیر عدت پوری کیے شادی کرنے کو زنا ، اس شادی کو نبی پاک کا حکم اور بی بی بشری کو بی بی فاطمہ کے ذریعے نا ممکن کو ممکن کروانے کا ذریعہ سمجھتے رہتے۔ ان خبروں کے غلط ہونے سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ذمہ دار صحافی نہ تواس پر معذرت کر رہے ہیں اور نہ وضاحت پیش کر رہے ہیں۔خبر یا دعوے کا غلط ہو جانا فطری عمل ہے لیکن اسے غلطی تسلیم نہ کرنا اوراس پر قائم رہنا غیر فطری عمل ہے۔اس حوالے سے ایک صحافی صاحب معذرت کر کے سب پر بازی لے گئے ہیں اور انھوں نے پاکستانی صحافت کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔میری باقی دو سینیر صحافیوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور خبروں میں کیے گئے دعوں پر معافی مانگیں یا اس کی وضاحت پیش کریں تا کہ پاکستان کی صحافتی برادری کی عزت برقرار رہ سکے۔ ورنہ عوام کا آپ کے ساتھ ساتھ پاکستانی صحافت پر سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔ یہ لوگ آپ کو جھوٹا کہنے لگیں گے اور آپ کے کالموں کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیں گے۔