علامہ اقبال نے کوئی ایک صدی قبل یہ شعر کہا تھا کہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
تو یہ ایک طرح سے ’’دوا‘‘ اور ’’دعا‘‘ کے فلسفے ہی کی بات تھی جو اس وقت کی دنیا اور اس میں مسلمانوں کی پسماندگی کو سامنے رکھ کر کہی گئی تھی اور یہاں ’’نظر‘‘ کا استعارہ بہت وسیع تر معنوں میں استعمال کیا گیا تھا البتہ جہاں تک خرد کی فراہم کردہ خبر کا تعلق ہے تو اس کے معانی اب بھی تقریباً وہی ہیں جو اس وقت تھے۔ بعض احباب اسے جدید اور سائنسی علوم، تحقیق اور علمی ترقی کی مخالفت سے تعبیر کرتے ہیں جو سراسر غلط اور اقبال کے ساتھ زیادتی ہے کہ انھوں نے کبھی بھی ایمان کے مقابلے میں عقل کو رد نہیں کیا بلکہ اس کو معرفت حق کا ایک زینہ بتایا ہے یعنی جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
تو وہ عقل کو بھی نور ہی کی ایک قسم گردانتے ہیں اور اس تک پہنچنے اور اس سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں کہ یہ علم کی پہلی منزل ہے اور یہ کہ جب یہاں تک پہنچ جاؤ تو رکو نہیں کہ اصل منزل اس راستے پر کہیں آگے ہے اور اور یہ کہ صرف عقل کی روشنی سے وہ اندھیرا دور نہیں ہو سکتا جو فی الوقت ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس کا ایک استعاراتی پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح خودی کے شعور کے بعد ’’بے خودی‘‘ کی ایک خود کفیل کائنات شروع ہو جاتی ہے اسی طرح خبر کے بعد ’’نظر‘‘ کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور یہاں پہنچ کر خرد اور خبر سفر کی طے کردہ منزلوں کی طرح کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور یوں خبر کی افادیت کا تعین اس ’’نظر‘‘ سے ہوتا ہے جو ہمارے مرض کا صحیح اور واحد علاج ہے یعنی نظر، خرد کی فراہم کردہ خبروں اور معلومات کا اسیر اور محتاج ہونے کے بجائے اس علم کی بات کرتی ہے جو خالق کائنات نے مختلف ذرایع سے ہم کو ارزانی کیا ہے۔
یہ نیم فلسفیانہ سی بحث مجھے اس لیے کرنا پڑی کہ آج صبح کے ’’ایکسپریس‘‘ میں کئی ایسی خبریں نظر سے گزریں کہ جو ایک سطح پر مکمل ہونے کے باوجود کئی ایسے پہلو بھی رکھتی ہیں جن میں معانی کا ایک ایسا نیا اور مختلف جہان آباد ہے جسے اگر ’’نظر‘‘ کے حوالے سے دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو خرد اور خبر کی محدودیت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ سرخیاں دیکھیے۔
-1 قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا یوم ولادت آج منایا جائے گا۔
-2 ارفع کریم رندھاوا کی پانچویں برسی آج منائی جائے گی۔
-3 پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری دبئی چلے گئے۔
-4 فوجی عدالتوں پر مشاورت کا مطلب انھیں بند کرنا ہے۔ (طاہر القادری)
-5 کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر شرپسندوں کا دھاوا
-6 لندن فلیٹس 93ء سے شریف خاندان کی ملکیت میں (بی بی سی)
-7 جنرل باجوہ سے چینی سفیر کی ملاقات
-8 شہباز شریف کی درخواست پر وزیراعظم نے کھاد پر سبسڈی بحال کردی۔
-9 ایمانداری۔ امریکی نائب صدر بھی بیٹے کے علاج کے لیے گھر بیچنے پر مجبور
-10 نیب حوالے کریں تین ماہ میں بڑے ڈاکو پکڑ کر دکھاؤں گا (شہباز شریف)
-11 عدالت کا مشرف کو وطن واپسی پر مکمل سیکیورٹی دینے کا حکم
-12 حکومتی امپائرز کی موجودگی میں الیکشن جیتیں گے
-13 دہشتگردی کے خلاف خصوصی اقدامات ناگزیر ہیں (صدر ممنون)
-14 چرس درویش نشہ ہے، شرابی سیاستدانوں کو سزائے موت دی جائے (شاہی سید)
-15 بری ہونے پر بھی پی ٹی آئی الزام لگاتی رہے گی (ڈاکٹر مصدق)
-16 شہریار اور نجم سیٹھی بھارت کے لیے کام کررہے ہیں۔ سرفراز نواز جی فار غریدہ میں گفتگو
یہ چند سرخیاں اخبار کے پہلے اور آخری صفحے سے ’’مشتے ازخروارے‘‘ کے طور پر لی گئی ہیں۔ بظاہر ان کے موضوعات مختلف ہیں مگر ان میں مشترک چیز وہی ہے جس کا ذکر اقبال نے ’’خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں‘‘ کے حوالے سے کیا تھا کہ ان خبروں کا انفرادی اور مجموعی تاثر پہلے سے لگے ہوئے جالوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ کسی کام کا نہیں ان تمام خبروں کی خبریت پر آپ عقل اور معلومات کے حوالے سے گھنٹوں بلکہ دنوں اور برسوں تک بحث کرتے جائیے نتیجہ اس لیے کچھ نہیں نکلے گا کہ خبر سے آگے گزرنے کے لیے جس علم، بصیرت اور نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بیچ میں سے غائب ہے۔
مثال کے طور پر ہم اس بات پر تو بحث کرتے ہیں کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا تھا اور یہ کہ حفیظ صاحب کے لکھے ہوئے ترانے میں ’’کا‘‘ کے علاوہ اردو کا کوئی لفظ نہیں لیکن یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ یہ کس قدر خوش آہنگ اور بامعنی ہے اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ’’اردو‘‘ کا لفظ ہم کس کو کہتے ہیں کہ یہ زبان تو بنی ہی عربی، فارسی، ترکی اور برصغیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے ملاپ سے ہے اور یہ کہ جن الفاظ کو فارسی کا قرار دے کر اس پر تنقید کی جا رہی ہے ان میں سے کون سا لفظ ایسا ہے جو بولی اور لکھی جانے والی اردو میں مستعمل نہیں یا اس کے معانی ڈھونڈنے کے لیے آپ کو اردو کے بجائے فارسی ڈکشنری سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ اس سوال کا جواب خبر سے نہیں بلکہ نظر سے ملے گا جو آپ کو بتائے گی کہ اس قومی ترانے کا اصل مقصد ماضی حال اور مستقبل کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے ان اہداف کا تعین تھا جن کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا ہے۔ اس میں دوا کا ذکر بھی ہے اور دعا بھی۔ سو اصل بات خبر تک پہنچنے، اسے پرکھنے اور سمجھنے کے بعد اس کا تعلق امن، خوشحالی، انصاف اور جذبۂ ایمان سے جوڑنے کی ہے جس کا علاقہ خبر سے مربوط بھی ہے اور اس سے جدا اور آگے بھی۔