تحریر: واٹسن سلیم گل
دہشتگردوں نے ایک بار پھر بزدلانہ کاروائ کر کے معصوم انسانوں سے جینے کا حق چھین لیا۔ اتوار 27 مارچ کو خود کش حملہ آور نے گلشن اقبال پارک میں اس وقت اپنے آپ کو بارود سے اڑا لیا جب معصوم بچے اپنے خاندانوں کے ساتھ اس بدقسمت پارک میں باہر کی دنیا سے بے نیاز کھیلنے کودنے میں مصروف تھے۔ انکے ماں باپ اپنے بچوں کے کھیل کود سے لطف اندوز ہو رہے تھی۔ انہیں یہ گمان بھی نہی تھا کہ جن سلامت بچوں کو وہ اپنی گود میں اٹھا کر اس پارک میں لائے ہیں بعد میں انہی بچوں کے ٹکڑے تلاش کرتے نظر آہیں گے۔ اس سانحے میں مسلمانوں کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں مسیحی بھی جان سے گئے ۔ جو کہ ایسٹر کے دن اپنے خاندانوں کے ساتھ اس پارک میں موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد یہ جانتے تھے کہ ایسٹر کے دن ہر سال اس پارک کے آس پاس رہنے والے مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد اس پارک میں آتی ہے ۔ مسیحیوں کی تعداد کے حوالے سے حکومت کے فگرز بلکل غلط ہیں۔ ہمارے چرچز اور ادارروں کا دعویٰ ہے کہ 42 مسیحی اس سانحے میں جاں بحق ہوئے ہیں جن میں 28 بچے بھی شامل ہیں اور لگ بھگ تین سو کے قریب مسیحی زخمی ہوئے جن میں سے پانچ شدید زخمی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف پاسٹر اورسماجی شخصیت پاسٹر عوبید رؤف جو اس پارک میں موجود تھے اور خوشقسمتی سے چند لمحے قبل ہی اس پارک سے اپنے خاندان سمیت نکل آئے تھے ۔ بتاتے ہیں کہ زندہ بچ جانے والے لوگ ابھی تک انتہائ خوف کے عالم میں ہیں۔ بحرحال نقصان تو پاکستانی عوام کا ہوا اور خون بھی پاکستانیوں کا بہا ۔
دوسری جانب اسی دن چند ہزار لوگ اسلام آباد کے انتہائ حساس مقام پر، جسے ہم ڈی چوک کہتے ہیں ، بلو ایریا یا رڈ زون پکارتے ہیں، قابض ہو گئے ۔ میرے حساب سے یہ پاکستان کی شہہ رگ ہے ۔ اس علاقے میں ایک طرف سپرئم کورٹ کی عمارت واقع ہے تو دوسری جانب پارلیمنٹ کی عمارت ہے ،اعوان صدر اور پاکستان ٹی وی کی عمارت بھی اسی زون میں واقع ہے ۔ یہ چند ہزار جاں نثارءقادری جن کی تعداد پہلے دن تقریبا 5 ہزار دوسرے دن چار ہزار تییسرے دن دو ہزار اور چوتھے دن شائد ہزار بارہ سو تھے ۔ یہ شدت پسند لوگ کیسے اتنے حساس علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں داخل ہوئے ۔ تمام حفاظتی اقدامات کو کیسے پھلانگ گئے ۔ پولیس اور قانون نافز کرنے والے ادرے کیوں منہہ تکتے رہ گئے؟۔۔ ان سوالوں کا جواب سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں مگر جواب کسی کے بھی پاس نہی ہے۔ مگر ان چند ہزار لوگوں نے کروڑوں ووٹرز کی نمایندہ حکومت کو گھٹنے ٹکوا دئے ۔ ایک ڈی ایس پی معطل نہی ہوا ۔ ان کے مطالبات میں دس نکات تھے ۔ جن میں سے پہلے تین نکات حکومت نے ماننے سے انکار کر دیا۔ پہلے تین نکات یہ تھے کہ ممتاز قادری کو شہید ڈکلیئر کریں ، دوسرا مطالبہ کہ جیل کی جس کوٹھری میں وہ رہے تھے اسے قومی ورثہ قرار دہیں ۔ مطالبہ نمبر تین یہ تھا کہ اس کوٹھری میں لائبرری بناہیں۔
حکومت نے یہ نکات اس لئے ماننے سے انکار کردیا کہ اس سے آیئنی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ممتاز قادری سزاء موت کا حقدار ہے۔ باقی سات نکات میں سے دو نکات توہین رسالت قانون کے حوالے سے تھے ۔ یعنی دو ہزار لوگ کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے باہر فیصلہ کریں گے کہ توہین رسالے کے قانون میں کوئ ترمیم نہی ہوگی۔ یعنی توہین رسالت کے قانون میں تو کیا اس کی نوک پلک سنوارنے پر بھی بات نہی ہوگی۔ پھر یہ کہ توہین رسالت میں سزا یافتہ مجرم کو کوئ ریایت نہی دی جائے گی۔ میرا خیال ہے کہ یہ عدالتوں پر دباؤ بڑھانے کے مترادف ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر ہائ کورٹ کسی کو توہین رسالے کے مقدمے میں سزا سناتی ہے تو سپریم کورٹ کے لئے دباؤ ہوگا۔ اس کے بعد صدر پاکستان کا کسی بھی مجرم کے جرم کو معاف کرنے کا اختیار بھی صلب ہوگا۔
اس کے علاوہ ان شدت پسندوں نے فورتھ شیڈ ول کی فہرست میں نطر ثانی کا مطالبہ کیا ۔ فورتھ شیڈول کی فہرست سے علما کرام کے ناموں کو خارج کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ جبکہ دو بندے جن کے نام اس فہرست میں موجود ہیں وہ اس دھرنے میں نظر آرہے تھے۔ جو کہ مقامی پولیس کے منہہ پر تماچہ ہے ۔ انسداد دہشتگدری کے مقدمات میں انتہائ مطلوب افراد کی فہرست کا فیصلہ بھی یہ چند ہزار کریں گے۔
ان لوگوں نے اسلام آباد کو چار دن محصور رکھا۔ دس ارب روپئے کا یہ نقصان اس کے علاوہ کروڑوں کی توڑ پھوڑ ۔ لاکھوں اسلام آبادیوں کے موبائل فون بند، بسیں بند، میٹرو بند ، اسکول بند ، سفارتخانے بند ہسپتال بند ایمولینسس بند ۔۔۔۔ اس دھرنے کا ایک اور شرمناک پہلو یہ تھا کہ شرکاء نے حکومتی نمایندوں اور وزیر اعظم نواز شریف کو ایسی ایسی فحش گالیاں دی کہ بے شرم لوگ بھی شرما جاہیں ۔ انہوں نے نواز شریف کے بچوں تک کو نہی چھوڑا۔ اور تو اور افواج پاکستان کے لئے مغلظات بکتے رہے ۔ ان کے ایک عالم تقریر کر رہے تھے کہ اچانک فوج کا ایک ہیلی کاپٹر اوپر سے گزرا تو گا لیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ جوتوں کی پارش کر دی پھر دوسرے ہیلی کاپٹر کے ساتھ بھی یہ ہی کیا وہ فوج کو گالیاں بک رہے تھے اور اوپر جوتے اچھال رہے تھے۔ یہ سوچے بغیر کہ کشش ثقل کا نظام موجود ہے۔ حکومت پاکستان اور ریاست اس حوالے سے فیل ہو گئے۔
یوحنا آباد میں خود کش دھما کوں میں اپنے عزیزوں کے جسموں کے ٹکڑوں کو دیکھ کر چند مسیحی نوجوان جزباتی ہو گئے اور انہوں نے توڑ پھوڑ کی جس کا خمیازہ وہ آج بھی جلیوں میں قید ہو کر بھگت رہے ہیں۔ مگر ڈی چوک پر قبضہ ، توڑ پھوڑ کرنے والوں ، وزیر اعظم اور افواج پاکستان کو گالیاں دینے والوں کے مقدمات ختم کرنے کے لئے کمیٹی کی تشکیل سمجھ سے باہر ہے۔ مجھے سمجھ نہی آتی کہ حکومت ان دو ہزار ڈنڈا برداروں کے سامنے کیسے جھُک گئ ہے۔ اور جواز یہ ہے کہ ہم نے لاشیں گرنے سے بچا لیں۔ تو سوال یہ ہے کہ حکومت تب کیا کرے گی اگر چند قبائل دس، بیس ہزار لوگ اسی علاقے میں اکٹھے کر لیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ ملک میں اسلامی نظام نافز کیا جائے (اور غلط بھی نہی کیونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے) ۔ اور ان کے پاس ڈنڈوں کے بجائے ہتھیار ہو گا۔ تو کیا تب بھی آپ لاشوں کو گرنے سے بچانے کا جواز تلاش کریں گے؟۔ حکومت کی رٹ کمزور ہوئ ہے۔ پاکستانی عوام کو ابھی تک یہ بھی نہی بتایا جارہا کہ بھائ گورنر سُلیمان تاثیر نے کب اور کیسے توہین رسالت کی تھی۔
تحریر: واٹسن سلیم گل