تحریر: مہر بشارت صدیقی
صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا ہے کہ کشمیر ہندوستان کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے جب کہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنا خارجہ اور عسکری پالیسی کا بنیادی حصہ ہے۔اسلام آباد میں کشمیری قیادت کے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم مقبوضہ کشمیر مسلم اکثریت والا علاقہ ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنا خارجہ اور عسکری پالیسی کا بنیادی حصہ ہے جب کہ کشمیر ہندوستان کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے ہم مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے حقوق کی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ پٹھان کوٹ واقعہ قابل مذمت ہے لیکن کچھ لوگ اسے کشمیریوں سے جوڑ رہے ہیں جو سراسر غلط ہے۔پانچ جنوری کو ہی کشمیریوں نے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم حق خودارادیت منایا۔ اس موقع پر احتجاج، جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرے ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ اسلام آباد میں حریت کانفرنس کے زیراہتمام اقوام متحدہ مبصر آفس کے سامنے مظاہرہ کیا گیا اور احتجاجی یادداشت پیش کی گئی۔
دنیا بھر میں کشمیریوں نے حق خودارادیت اس عہد کی تجدید کے ساتھ منایا کہ بھارتی تسلط سے آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رہے گی۔ بھارتی فوج نے مظاہروں کو روکنے کیلئے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے1993ء کے سانحہ سوپور میں شہید ہونے والے 5 درجن کے قریب عام شہریوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آج سوپور میں ہڑتال اور شہداء کی درجات کی بلندی کیلئے دعائیہ مجالس کی اپیل کی ہے۔ سید علی گیلانی نے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوںکشمیریوں کے قتل عام کے تمام واقعات کی اقوامِ متحدہ کے جنگی جرائم ٹربیونل کے ذریعے سے تحقیقات کرانے کامطالبہ دہرایا۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بلاتاخیر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیراہتمام یوم قرارداد حق خودارادیت کے سلسلے میں اسلام آباد میں کنونیئر غلام محمد صفی کی قیادت میں اقوام متحدہ کے مبصر دفترکے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس موقع پر مقررین نے 5 جنوری 1949ء کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کشمیر سے متعلق قرارداد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بنیاد فراہم کرتی ہے اور اس قرارداد میں کشمیر کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ مقررین نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ ان قراردادوں کو جو خود اقوام متحدہ نے کشمیر سے متعلق بھارت اور پاکستان کی مرضی سے پاس کیں ہیں ان پر عمل درآمد کرائے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی میںکشمیر ی عوام کے حق رائے دہی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے 5 جنوری1949 کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے حوالے سے متفقہ قرار داد منظور کر تے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیری عوام ہی فریق اول ہیں ،کمیٹی کے ذریعے دنیا اور اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی کہ کشمیر میں خون ریزی بند اور خطے میں امن و ترقی کیلئے بھارت پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔ راجہ محمد ظفرالحق کی طرف سے 5 جنوری1949 کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان ،بھارت اور سلامتی کونسل کے تمام ارکان کی طرف سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کے علاوہ بعد میں دو مزید دو درجن قراردادوں کی متفقہ حمایت کرتے ہوئے قرار دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیری عوام ہی فریق اول ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 18 ترمیم کے بعد صوبوں میں تعلیم اور تعلیمی اصلاحات صوبائی معاملہ ہے اس قسم کے کسی بھی بل پر غور خوص کرتے ہوئے صوبائی خود مختاری کو بھی مد نظررکھنا ہوگا۔پانچ جنوری کو یوم حق خود ارادیت لیکن چھ جنوری 1993 کو جو کچھ ہوا اسے بھلانا نہ صرف کشمیری بلکہ پاکستانی قوم بھی نہیں بھلا سکتی۔شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں ایک الگ ہی سماں ہے جہاں لوگ 23برس قبل کی خونچکانی پر نالاں ہیں۔اہلیان ِ سوپور6جنوری 1993کے اْس دن کو ابھی بھی نہیں بھول پائے ہیں جب23برس قبل سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکاروں نے سوپور قصبے میں خاک اور خون کی وہ تاریخ رقم کی تھی جس نے نہ صرف سوپور بلکہ پوری وادی میں کشمیریوں کے دل ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مجروح کئے ہیں۔
یہ وہی دن ہے جب سوپور کو آگ کے شعلوں کی نذر کرکے 57 کے قریب معصوم افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا جبکہ 300 سے زائد تعمیراتی ڈھانچوں کو راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا تھا۔گورنر انتظامیہ کی جانب سے جسٹس امر جیت چودھری پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا۔دوسال تک کمیشن قائم رہا تاہم کوئی سماعت نہ ہوئی۔کمیشن بعد ازاں تحلیل تو کیاگیا لیکن انتظامی سطح پر اعلیٰ سطحی انکوائری کی اْس وقت کے چیف سیکریٹری کی سفارش کو درخور اعتنانہ سمجھ کر مسترد کردیاگیا۔19سال بعد معاملہ انسانی حقوق کمیشن میں گونج اٹھا وہاں کیس کی 6سماعتیں ہوئیں تاہم بار بار کی سرزنش کے باوجود حکومت کمیشن میں کوئی جواب پیش نہ کرسکی اور پھر کمیشن ہی مفلوج ہوکر رہ گیا۔یوں کیس لٹکتا ہی رہااور انصاف کا خون ہوتا رہا۔ حکومت کے اس رویہ کی وجہ سے اہلیان سوپور23برس بعد اب انصاف کی تمام امیدیں کھو بیٹھے ہیں۔ اس تباہی کے بعد کئی روز تک سرکاری اور غیرسرکاری وفود کا تانتا بندھا رہا۔دن بیت گئے اور لوگ پھر سے روزی کی تلاش میں جٹ گئے۔
جیسے تیسے لوگوں نے اپنی زندگیاں سمیٹ تولیں لیکن دل پر لگے زخم تو رہ گئے تاہم اجتماعی احساس ذمہ داری چلاگیا۔نفسی نفسی رائج ہوگئی۔ غریبوں اور محتاجوں کی امداد کیلئے قائم کئے گئے وہ نجی ٹرسٹ جو کبھی فعال ہوا کرتے تھے ،آج مفلوج ہو چکے ہیں ،سیاسی لیڈروں نے چپ سادھ لی۔23برس گزر گئے۔6جنوری1993کو سوپور میں جن لوگوں کی زندگی کی شام ہوگئی ،ان کی یاد یں بھی اْن کے ساتھ ہی تمام ہوگئیں۔متحدہ جہاد کونسل کے چیرمین سید صلاح الدین نے شہداء سوپور کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، برصغیر میں دائمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جموں و کشمیر کے نہتے آزادی پسند عوام کو دیوار سے لگا کر اور ان پر اپنا جابرانہ تسلط جاری رکھ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس خطے میں امن آسکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے عین مطا بق جب تک کشمیریوں کی رائے کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جائیگا تب تک کشمیری عوام چین سے نہیں رہیں گے۔اکشمیر کے مسئلے کو نظر انداز کرنے کا لا زمی نتیجہ یہ ہوگا کہ نہ صرف برصغیر بلکہ پورا ساوتھ ایشیا اس صورتحال سے متاثر ہوگا۔ شہداء سوپور کا مقدس لہو ضائع نہیں ہوگا،حریت پسند عوام اور مجا ہدین ،جد وجہد آزادی کو سبو تاڑ کرنے کی ہر کو شش کو نا کام بنا دینگے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی