تحریر: شاہ فیصل نعیم
“ہم میں سے ہی نیوٹن اور آئن سٹائن پیدا ہوں گے”۔یہ اس کے آخری الفاظ تھے اور اس کے بعد تالیوں کی ایک لمبی گونج۔۔۔۔! الحمرا کلچرل کمپلیکس میں انٹر میڈیٹ کے پوزیشن ہولڈرز کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں نا صرف پنجاب بلکہ باقی صوبو ں سے بھی بچوں کو بلایا گیاتھاتاکہ صوبائی ہم آہنگی کو فروغ ملے۔یہ الفاظ آزاد کشمیر کے ایک ہونہار طالب علم کے تھے جس پر مادرِعلمی کو ناز تھامیں اس طرح کے الفاظ مختلف مقامات پر مختلف شخصیات سے سنتا آیا ہوں یہ ہر بار میرے ذہن میں ناتھمنے والے سوالوں کے طوفان کو جنم دیتے ہیں۔ ہم برسوں سے ایسے الفاظ کہہ اور سن رہے ہیں لیکن ہم ابھی تک ایسے سپوت پیدا نہیں کر سکے۔سوال تو اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔
آج سے کوئی ڈیڑھ سال پہلے میں اپنے سکول میڑک کی سند لینے گیا جس طرح وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ انسان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اسی تناسب سے اس کی تخلیق کردہ چیزیں بھی بدلتی رہتی ہیں کچھ شکست و ریخت کا شکا ر ہو کر تباہی کی لہر میں بہہ جاتی ہیں اور کچھ منتہائے کمال کو اپنا مقصد بنا کر عروج کی منازل کاسفر طے کرتی ہیں ہمارا سکول پہلے سے بہت بہتر تھاویسے تو اپنے زمانہِ طالب علمی میںمیں اس سکول کی ہر شے سے آشنا تھا لیکن جو کچھ آج دیکھنے کو ملا وہ ایک انوکھی داستان کو جنم دے گیا۔میں سند وصول کرنے کے لیے جس کمرے میں گیا وہا ں ایک طرف ایک بڑی سی الماری پڑی ہوئی تھی جس میں بہت سی کتابیں پڑی ہوئی تھیں جن میں سے کچھ کودیمک چاٹ گیا تھا ، کچھ کو چاٹ رہا تھا ،کچھ زبانِ حال سے اپنے ساتھ کیے گیے ناروا سلوک کی داستان سنا رہی تھیں۔ع
لامہ اقبال نے کہا تھا کہ میںاپنے آبائو اجداد کے تخلیق کردہ علم و حکمت کے موتی جب یورپ کی درس گاہوں میں دیکھتا ہوں تو میرا دل سیپارہ ہو جاتا ہے ۔لیکن آج یہا ں پڑی ہوئی کتابوں کی حالت دیکھ کر میرا دل چاہا کے میں اہل مغرب کو سلوٹ کروں جو علم وحکمت کے گوہرِ نایاب ہم سے چھین کر لے گئے اور اُن سے فیض حاصل کیاقانونِ قدرت ہے کہ جس قوم کو جس نعمت کی قدر نہ ہو اس سے وہ نعمت چھین لی جاتی ہے۔
اہلِ مغرب ہماراسارا سرمایہ لے گئے اور اس سے روشنی کی راہیں ہموار کر کے پستی کے اندھیروں سے باہر نکل آئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی ان کے قدم چومتی رہی اور ہم۔۔۔۔! پہلے تو ہمارے پاس کچھ بچا ہی نا تھا اور جو بچا وہ بھی ہم نے الماریوں میں بند کرکے رکھ دیا کہ کہیں ایسا نا ہو جائے کے کوئی طالب علم ان فن پاروں سے رہنمائی پا کر ملک و ملت کا کھویا ہو ا وقارپھر سے حاصل کر لے۔
ہم نے اپنے سکولوں وکالجوںمیں تجربہ گاہیں بھی بنوائیں ان میں رکھے گئے کیمیکلزپڑے پڑے خراب ہو گئے ،آلات پڑے پڑے ٹوٹ گئے لیکن ہم نے اپنے بچوں کو یہ اجازت نہ دی کہ وہ ان کو اپنے تصرف میں لا کر کچھ سیکھ سکیں، ہم نے سکولوں اور کالجوں میں کمپیوٹر لیبز بھی بنوائیں لیکن دروازے پر یہ تختی لٹکا دی کہ “لیب میں سٹوڈنٹس کا داخلہ ممنوع ہے”اور خوداستادِمحتر م ان لیبز میں فیس بک پر بات کرنے میں وقت ضائع کرتے رہے اور گیمز کی بازیاں لگاتے رہے اور اُدھرطالب علم مستقبل کی بازی ہارتے رہے۔
میرے کشمیری بھائی ایسے حالات میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے لوگ پیدا کر سکتے ہیں ۔اس ملک کے لیے جو کوئی بھی کچھ کرتا ہے وہ بعد میں پچھتاتا ہے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ؟محسنِ ملت ڈاکٹر عبدالقدیر نے کہا تھا کہ میں اس قوم کے لیے کام کرکے بہت پچھتایا ہوں جس قوم کا اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا برتائو ہو وہ نیوٹن اور آئن سٹائن کیا خاک پیدا کرے گی۔۔۔؟؟
تحریر: شاہ فیصل نعیم