تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ’’ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، تمام مخلوقات اللہ تعالی کی عیال ہیں اور اللہ تعالی کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کی عیال (یعنی مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے‘‘۔خدمت انسانیت کا جذبہ سرِ راہ گرے انسان کی مدد کے لئے قطعی یہ دریافت نہیں کرتا کہ آیا اِسکا تعلق کس مذہب، مسلک، قوم یاقبیلے سے ہے۔اور اِس خدمتِ انسانیت ،کی تعلیمات ہر مذہب میں موجود ہیں مگر اسلام جو سلامتی اور امن کا دین ہے، میں اسکا معنی و مفہوم بہت واضح اور دائرہ کار نہایت وسیع ہے۔
اسلام میں خدمت خلق درحقیقت ایک قسم کا صدقہ جاریہ ہی ہے جس سے ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں ۔حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے ،کسی بے نشان زمین پر کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے، جس شخص کی نظر کمزور ہو اس کی مدد کردینا بھی صدقہ ہے،اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے، تم جو ایک دفعہ اللہ کی تسبیح کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے کسی بھلائی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے ، برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے ، راستے سے کانٹے وغیرہ تکلیف دینے والی چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے وہ آدمیوں میں صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے اور اگر تم کسی شخص کو اس کی سواری پر چڑھنے میں مدد دو تاکہ وہ سہولت سے چڑھ جائے تو بھی صدقہ ہے( ترمذی،مسلم اور بخاری کی احادیث کا مفہوم)۔
ہر غم اور ہر خوشی بانٹ لینی چاہیے
آپس میں زندگی بانٹ لینی چاہیے
الحمداللہ ہمارا شمار دنیا کی زندہ قوموں میں ہوتا ہے۔ کیونکہ قوم ہمیشہ وہی زندہ کہلاتی ہے جو سوچ و طبقات سے بالا تر ہو کر خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہوجو دوسروں کی خوشی کو بڑھانے اور غمی کو بانٹنے کی احساسِ ذمہ داری سے باخوبی آگاہ ہو۔یہ خدمت۔۔۔ دین،علماء کرام، والدین، اساتذہ ،عزیز و اقارب ،اپنے دیس اور اپنی کمیونٹی کی بھی ہو سکتی ہے ۔کوئی قلم سے خدمت کر رہا ہے تو کوئی تلوار سے ، کوئی اپنے اقوال سے خدمت میں مصروف عمل ہے تو کوئی عمل سے، کوئی صاحب استطاعت خدمات پیش کرنے لئے اپنے مال کا سہارا لیتا ہے تو کوئی تسلی کے چند الفاظ کا، کوئی زخموں پر مرہم رکھتا ہے اور زخم لگنے نہیں دیتا۔
کسی کے پاس اقتدار ہے تو کسی کے پاس اقدار، کوئی انفرادی طور پر پیش پیش ہے تو کوئی ادارے کی صورت میں، مذہب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں سب سے زیادہ متحرک و فعال خدمتِ خلق کے سرکاری و غیر سرکاری فلاحی ادارے اسلامی ہیں جسے دیگر مذاہب میں ہر سطح پر تسلیم بھی کیا گیا ہے اور سراہا بھی جاتا ہے،یہ ادارے فروغِ تعلیم، صحت کی سہولیات ،کاروباری شخصیات میں باہمی مدد و تعاون، محتاج و ضرورت مندو مصیبت زدہ کی مدد وغیرہ میں اپنا موثر اور بے لوث کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے اسلامی معاشرے میں مخلوق خدا کی خدمت کے انداز اور طریقہ کارکاخاموش سمندر اتنا ووسیع و عریض ہے کہ اِسے چند جملوں یا صفحات کے کوذے میں قید نہیں کیا جاسکتا ۔ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم اگر تیرے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت مل جائے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
مناسب ہدایات ،بروقت فیصلے، مثبت اقدامات،صیح معلومات اور بہترین راہوں کے تعین کے لئے اہل علم اور تجربہ کارحضرات سے باہمی مشاورت اور ان کارآمند مشورں اور رہنمائی سے دیگر کو آگاہی کے لئے دیار غیر میں ایک ایسا ہی فلاحی ادارہ ’’نہرہ ہومز بزنس کمیونٹی، دبئی‘‘ کے نام سے کمیونٹی کے کاروباری افراد کے لئے جنوری ۲۰۱۵ سے خدمات پیش کررہا ہے۔مذہب، قومیت، صوبائیت، نسل کو بالاطاق رکھتے ہوئے اس فورم پے باہمی محبت ،اخوت،خدمت اور تعاون کا قابل دید منظر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔اس فورم کے فاونڈر ممبرز کی تعداد ۱۱۸ ہے۔ بنیادی طو رپراس فورم کے قیام کا مقصد دیارِ غیر میں مقیم محدود پیمانے پر کاروبار کرنے والیں شخصیات کے high profile business personalities سے اچھے کاروباری روابط استوار کرانا۔ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کے لئے خوشگوار ماحول فراہم کرنا اور ر referances شیئر کرنا۔طے شدہ پروگرام کے تحت بروز ہفتہ دبئی کی پرائم لوکیشن برج خلیفہ ایریا میں واقع نہرہ ہومز کے آفس میں ۸۰ سے ۱۰۰ بزنس مین اکٹھے ہوتے ہیں جو اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی بزنس پلان بھی آفر کرتے ہیں۔رہنمائی ،قوانین اور دیگر معلومات کی فراہمی کے لئے دبئی چیمبر آف کامرس، امیگریشن، لیبر آفس اور دبئی پولیس کے علاوہ پاکستانی کونصلیٹ کے نمائندگاں بھی گاہے بگاہے حاضر رہتے ہیں۔
تقریبا سات ماہ کے قلیل مدت میں ۴۱۶۰ افراد اس کی باقاعدہ ممبر شپ حاصل کر چکے ہیں۔ اس پلیٹ فورم کے قیام کے مقاصد بارے پوچھے گئے سوال پر نہرہ ہومز بزنس کمیونٹی کے چیئرمین و بانی غلام مصطفی نہرہ کا کہنا ہے کہ دبئی کے بہترین قوانین اور بڑی مارکیٹ ہونے کے باعث دنیا بھر سے کاروبار کی غرض سے افراد اپنا پیسہ لیکریہا ں آتے ہیں مگر محدود معلومات انہیں کسی نہ کسی پریشانی سے دوچار کر دیتی ہے جبکہ اس پلیٹ فورم کے توسط سے انہیں طویل المدت پالیسیوں کے حوالے سے بلامعاوٖضہ مشورے فراہم کئے جاتے ہیں ۔اِس سوال کے جواب میں کہ ’’بزنس کونسل جیسے ادارے کی موجودگی میں اس پلیٹ فورم کی کیا افادیت ہے؟‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ جو کاروباری حضرات پہلے ہی سے مالی مسائل کا شکار ہوں وہ بزنس کونسل کی ممبرشپ فیس ۱۰۰۰ درہم، کیسے ادا کر پائیں گے؟جس سے عزت نفس بھی مجروع ہوتی ہے۔
جبکہ ہم کوئی چندہ و فیس طلب نہیں کرتے۔ دبئی قوانین کے مطابق ایسوسی ایشن کا گروپ تشکیل نہیں دیا جا سکتا اس لئے اس فورم کو کمپنی کے نام سے ہی شروع کیا گیا ہے جو کہ دبئی چیمبر آف کامرس سے باقاعدہ منظور شدہ ہے۔ اب تک سو سے زاید بیروزگار اس فورم کے توسط سے باعزت نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔ ۲۵ کے قریب پریشان حال کاروباری حضرات کے لائسنز کی تجدید ہو چکی ہے۔جبکہ انکی کوئی مالی معاونت نہیں کی گئی بلکہ باہمی مشوروں سے انہیں انکے حسب منشا کام کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔۔اسی طرح قونصلیٹ کی مدد سے دو اوورسیز پاکستانیز جو کہ اچانک حادثہ کی صورت میں وفات پا گئے تھے کہ میت کو پاکستان روانہ کیا گیا ہے۔اہل خانہ کے لئے انشورنس کیس فائل کئے گئے ہیں۔
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں۔
جس انداز و سرعت سے کاروباری شخصیات کو بلا معاوضہ اور بے غرض فواہد پہنچانے کے غلام مصطفی نہرہ کی زیرِ سرپرستی نہرہ ہومز بزنس کمیونٹی فورم دن رات اپنی بے لوث خدمات پیش کر رہا ہے دیارِ غیر میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔دبئی متحدہ عرب امارات میں’’نہرہ ہومز بزنس کمیونٹی فورم کو اگر خدمت کا دوسرا نام ‘‘کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔آئیے۔انسان خدمت سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے اس پلیٹ فورم کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز کر کے ہم اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہو سکتا ہے ہماری اِس ادنی سی کاوش سے کسی کے لئے روزگار کا حصول ممکن ہو جائے یا کسی کے کاروبار کی ڈوبتی سفینہ کو کنارہ مل جائے۔
تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ
دبئی ،متحدہ عرب امارات