تحریر : انجم صحرائی
میں نے بلاکم و کاست ساری کہانی بیان کر دی۔ میری بات سننے کے بعد صوبیدار بو لے کہ یہ انہی کی یونٹ کا سپاہی ہے جو گذشتہ کئی مہینوں سے یونٹ سے بھگوڑا ہے انہوں نے مجھے کہا کہ آپ جا ئیں اب یہ ہمارا زندہ پیر ہے ہم اس کی خدمت کریں گے ۔ میںواپس اپنے دفتر آ گیا ۔ صبح مجھے پتہ چلا کہ رات کو ہی بھگوڑے فو جی کو تھا نہ سٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے جہاں وہ حوالات میں بند ہے میں اس سے ملنے گیا اس نے ابھی کھا نہ نہیں کھا یا تھا اسے کھا نا کھلا یا ۔ وہ نو شہرہ کا رہنے والا تھا اس نے مجھے اپنے گھر کا پتہ دے کر کہا کہ میں اس کے والد کو اطلاع کردوں ۔ اس کا باپ محکمہ سو ئی گیس نو شہرہ میں ڈرا ئیور تھا میں نے اس کے والد کو خط لکھا جس میں اس کا سارا احوال لکھ بھیجا ، چند دنوں کے بعد اس کے باپ کاجوابی پو سٹ کارڈ مو صول ہوا کہ اسے بحیرہ عرب میں دھکا دے دو امارا اس سے کو ئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے ۔ زندہ پیر تھا نے کی حوالات میں پندرہ بیس دن سے زیادہ رہے میں اسے کھا نا دینے اور ملنے جاتا رہا ۔ ایک دن صبح میں اسے کھا نا دینے گیا تو اس نے کھا نا لینے کے بعد مجھے کہا کہ میں اس کی بات سنوں میں اس کے قریب ہوا تو اس نے حوالات کے دروازے کی سلا خوں سے ہاتھ نکال کر مجھے گریبان سے پکڑ لیا اور میری گردن دباتے ہو ئے غصے سے بو لا حرام خور ام تم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تم نے ہمیں پھنسایا ہے۔ میرا شور سن کے کسی سپا ہی خان نے آ کر میری گرن چھڑا ئی اس دن کے بعد میں کبھی زندہ پیر سے ملنے حوالات نہ گیا ۔ چند دنوں کے بعد پتہ چلا کہ اسے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے
یہ تھا شب و روز زند گی کا ایک فیز ۔ اس کتاب زند گی کا دوسرا با ب شروع کرنے سے پہلے میں چا ہتا ہوں کہ آ پ اس لیہ کو جان پا ئیں جس لیہ سے میں آ شنا ہوا تھا یہ ستر کی دہا ئی کی بات ہے جب میں نے پہلی بار لیہ دیکھا ۔ اس زما نے میں میری عمر یہی کو ئی بارہ تیرہ بر س کی ہو گی میں لیہ میں اپنی مرحو مہ پھو پھوکے گھر آ یا ہوا تھا جو چوک سبزیمنڈی کے قریب ایک گلی میں تھا اس زما نے میں سزیمنڈی بمبئے بازار کے وسط میں ہوا کر تی تھی ان دنوں ایک ڈرامہ لگا ہواتھا بمبئے بازار میں واقع سکول نمبر1 میں ، اور ڈرامے کا نام تھا فر عون ۔ ڈرامے کا ہیرو کون تھا یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن ولن تھا کرتار سنگھ ۔ کرتار سنگھ کا اصل نام منور تھا پیشہ کے لحا ظ سے مو چی تھے اس لئے انہیں منا مو چی کے نام سے پکارا جا تا تھا ۔ چٹے ان پڑھ مگر خدا نے جن صلا حیتوں سے انہیں نوازا تھا اگر وہ کسی قدر شناش سماج میں پیدا ہوتے تو ایک بڑے ادا کار ہو تے ۔مجھے یاد ہے کہ میری پھو پھو نے میری ضد پر پھو پھا جی سے چوری مجھے ایک روپے کا سلور کا سکہ دیا تھا تاکہ میں یہ ڈرامہ دیکھ سکوں ۔ ڈرامے کا ہدا یتکار گگن تھا جس کا اصلی نام خالق داد تھا قا ضی فیملی کا خالق داد گگن ایک با صلا حیت نو جوان تھا ۔ وہ زما نہ لیہ میں ڈرامے کے عروج کا دور تھا۔
عطا جٹ۔ عبد الشکور انصاری، اقبال اسدی، ساجد افروز، جمیل بلوچ بھی اس زمانے کے ڈرامہ فن کار تھے سرا ئیکی فلم خان بلوچ جس کی فلمبندی لیہ میں بھی ہو ئی تھی جمیل بلوچ اور اقبال اسدی نے بھی اس فلم میں کردار ادا کئے تھے۔ فلموں سے یاد آ یا ناز سینما کے مالک منور احمد نے بھی ایک فلم آس پاس کے نام سے بنا ئی تھی 1957 میں بننے والی اس فلم کے ادا کاروں میں صبیحہ ، اسلم پرویز اور علا ئو الدین نما یاں تھے اس زما نے میں فلموں کی منادی خدا بخش کستوری کے ذمہ ہوا کرتی تھی وہ دن میں کسی بھی وقت اس شان سے نکلتا کہ ایک لڑکے نے فلم کا بورڈ کندھے پر اٹھا یا ہو تا ایک ڈھول والا اس کے پیچھے اور کھدا ایک ہا تھ سے گھنٹی بجاتے فلم کی تشہیر کرتا ۔ ناز سینما اس زما نے میں لیہ شہر کی واحد تفریح گا ہ تھی مجھے یاد ہے میں نے پہلی فلم “افسا نہ زند گی کا ” دیکھی تھی اس فلم کے ہیرو شہنشا ہ جذ بات اداکار محمد علی اور ہیروئن ادا کارہ زیبا تھیں۔ ایک اور بات جو ناز سینما کے حوالے سے بچپن کی یادوں میں سے ہے وہ یہ کہ اس زما نے میں بہت سے بچے اور نو جوان ناز سینما کی پچھلی گلی کے دروازوں کے ساتھ لیٹ کر آ ئینے لگا کر فلم دیکھا کرتے تھے ۔ میرے کزن بھی اکثر رات کواس طرح مفت فلم دیکھنے کی عیا شی کیا کرتے تھے میں جب بھی کوٹ سلطان سے لیہ آ تا آ فتاب مجھے یہ مفت کی عیا شی ضرور کراتا۔ لیکن یہ بہت بچپنے کی بات ہے ۔ بات ہو رہی تھی فر عون ڈرامہ اور ڈرامہ فن کا روں کی تو صاحبو ہم بھی تو فن کا رتھے ڈرامے کے نہیں بلکہ لکھنے لکھا نے کے ۔ یہی شوق مجھے گگن کے قریب لے آ یا۔ گگن کے ایک بھا ئی سعودی عرب میں ڈاکٹر تھے ایک پو لیس میں اور ایک کے ڈی خان ہمارے شہر کی مشہورو معروف ہنستی مسکراتی شخصیت ہیں۔
ستر کی دہا ئی کے اس دور میں سول کورٹس ، ہسپتال اور تقریبا سبھی دفاتر شہر کے شما لی حصہ میں ہوا کرتے تھے ۔ لیہ ما ئینر کے بعدپرا چہ پٹرول پمپ ، ٹی ڈے اے چوک پر اے ایم او ورکشاپ کی چمنیوں ں سے نکلتا دھواں ، کہا جا تا تھا کہ اس زما نے میں اے ایم او ورکشاپ بلڈوزروں کی ایشیا کی سب سے بڑی ورکشاپ تھی واپڈا آ فس اور سر کنڈوں سے ڈھکی سڑک کے درمیان میں کا لجز اور بہت آ گے لیہ شو گر ملز ۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے ایک بار غافل کر نالی جو کہ شو گر مل میں ملازم تھے سے ملنے لیہ شو گر مل جا نا پڑا تو اس زما نے میں کالج اور ہا ئو سنگ کا لو نی کے درمیان والی سڑک کے دونوں طرف سر کنڈے ہی سر کنڈے تھے ہا ئو سنگ کا لونی نمبر ایک کی سڑ کیں وغیرہ بن چکی تھیں مگر ابھی وہاں زیادہ آ بادی نہیں تھی ۔ صدر بازار کی معروف دکا نوں میں جنوبی بازار میں رحما نیہ میڈ یکل سٹور ، ملک مہر الہی کا ملک میڈیکل ہال ، کتا بوں کی دکان قیوم دی ہٹی ، اسحق جلد ساز ، اقبال کلا تھ ہا ئوس ، مجا ہد پان شاپ ۔ حکیم محمد رمضان۔حکیم شیخ منظور حسین ، شیخ غلام محمد کا شمیم جزل سٹور ،عادل جزل سٹور ،با بے چراغ کی دودھ دہی کی دکان ،لطیف کلا تھ ہا ئوس ، لا ہور فوٹو گرا فر ، محبوب بیکری ، منیر آ ئس کریم ، اکبر کباب شاپ ، مرزا جی چھو لوں والا ،شیخ بشیر زر گر علوی مٹھا ئی کی دکان چوک قصا باں ، افغان میڈ یکل ہال ،ڈیڈا ہو ٹل والا ،مرزا پان شاپ ، سر حد میڈ دیکل سٹور ، چوہدری رشید کلاتھ شاپ ، سعید جزل سٹور ،یو سفی سویٹ ہا ئوس ، بشیر بیکری ، قبال مٹھا ئی والا ،نثار کلا تھ ہا ئوس ، چمڑے کی دکان ۔ قا در سنا رہ ، مظفر گھڑی ساز سے علا وہ چوک قصا باں پر ایک اور پان سگرٹ کی دکان بھی ہوا کرتی تھی ان کا نام امام دین تھا ۔ وہ پان سگرٹ فروشاں کے تا حیات صدر تھے ۔ اس زما نے میں میرے ایک دوست ہو کرتے تھے وہ تھے محمد شفیق زرگر ۔ ابتدا میں شفیق نے محلہ بیلے والا میںاپنے مکان کی بیٹھک میں ہی دکان بنا ئی ہو ئی تھی بعدمیں ان کے بچوں نے فیصل گو لڈ لیبا رٹری صدر بازار میں قا ئم کی ۔ بڑے محبت کرنے والے اور محنت کر نے والے انسان تھے۔
صدر بازار کے حوالہ سے مرزا جی اوجھڑی اور چھو لے والے کی ریڑھی ، سادہ سا کرتا اور تہبند میں پہنے با ئو پلا ئو والا جو جنوبی بازار سے ایک پلا ئو کا دیگچہ سر پر رکھ کے نکلتا اور شما لی گیٹ تک آ تے آ تے اس کا دیگچہ خالی ہو جاتا ، اور چوک قساباں پر رمضان برف والا بھی لیہ بازار کے یاد گار کردار ہیں جو مجھے یاد ہیں ۔ ستر کی دہا ئی میں بلدیہ کے دفاتر کے سا تھ ہی اسلا میہ گرلز سکول والی بلڈ نگ میں سول کورٹس ہوا کرتی تھیں اس کے سا تھ ہی ویرا سٹیڈیم جس بارے تفصیلات آ پ پہلے پڑھ چکے ہیں جنوبی بازار کے ساتھ گورٹمنٹ ما ڈل ہا ئی سکول اور سکول کے سا تھ ہی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جو آج تھل ہسپتال اور کبھی میاں نواز شریف ہسپتال کے نام سے مو سوم اپنی بقا کی جنگ لڑ نے میں مصروف ہے اور اس سے ذرا آ گے ویرا سٹیڈ یم ۔ بلد یہ سے اسلم موڑ کی طرف جا تے ہو ئے جو بلڈ نگ مجھے یاد ہے وہ ہے آج کی زکریا اکیڈ یمی کے سا منے کھلے میدان میں بنا سفید گھر جس کے با ہر جا لیوں کا ایک بر آ مداہ تھا ۔ اس گھر میں عیسا ئی مشنری مبلغ مسٹر برٹ لو ئر اپنی فیملی کے سا تھ رہا کرتے تھے ۔ان کے گھر کے سا منے دن میں ایک بڑی سی لینڈ کروزر کھڑی ہو تی تھی وہ جب بھی اپنی فیملی کے ساتھ اس لینڈ کروزر پر باہر جا نے کے لئے نکلتے تو میں نے ان کی انگریز بیوی ایزل ور بیٹی مریم کو ہمیشہ د دو پٹہ لئے دیکھا ۔ مسٹر برٹ لو ئیر بہت سا لوں لیہ میں رہے انہوں نے اپنی زند گی کا بہت ساعر صہ لیہ میں گذارا تقریبا سترہ اٹھارہ سال ۔ اس سے ہٹ کر کہ وہ ایک عیسا ئی مبلغ تھے برٹ لو ئر ایک با اخلاق اور شر یف انسان تھے شہر میں عمو ما شلوار قمیض میں ملبوس سر پر ہیٹ پہنے اپنی سا ئیکل پر نکلتے اور جو بھی شنا شا ملتا اردو میں سلام کہنے میں پہل کرتے ۔ایک دفعہ انہوں نے اسلم موڑ پر واقع سا بقہ یو نا ئیڈ بنک کی عمارت کے سا منے ایک دکان کرایہ پر لے کر ایک لا ئبریری بھی قائم کی اس لا ئبریری میں مجھے بھی جا نے کا اتفاق ہوا میں نے مسٹر برٹ لو ئر سے پو چھا کہ با ئبل مقدس میںمکا شفہ کا باب جو ہے اسے مکا شفہ کیوں کہا گیا ہے تو مسٹر برٹ لو ئر نے بڑی مشکل سے اردو میں بتا یا کہ مکا شفہ کا مطلب ہے تف۔۔ تف۔۔ تف۔۔ تفسیر یعنی با ئیبل مقدس کی تفسیر۔
اسلم موڑ سے لیہ ما ئینر تک اس زما نے کی یادوں میں اسلم موڑ پر بشیر شاہ کا ہو ٹل ۔ عبد اللہ بلڈنگ میں ڈینٹل ڈاکٹر مقبول کا کلینک ،عزیز میڈ یکل ہال ، مرزا سا ئیکل سٹور، بھائی جی کی ہٹی ، کلینک ڈاکٹر شیر محمد ، کلنک ڈاکٹر قیصر رضوی ۔ ایم سی ہا ئی سکول سے پہلے ایک فوٹو گرافر کی دکان بھی ہوا کرتی تھی اس فو ٹو گرافر کا ایک ہا تھ شا ئد کٹا ہوا تھا یا مڑا ہوا تھا اس کی دکان کے باہرایک کالا سا بڑا جہا زی سا ئز کا ایک ڈبہ نما کیمرہ پڑا ہو تا تھا ۔ وہ اس ڈبے میں گردن ڈال کر سا منے بیٹھے ہو ئے بندے کی تصویر اتارتے اور جب گردن با ہر نکا لتے تصویر ان کے ہا تھوں میں ہو تی ۔مشہدی ہو ٹل ، ریلوے پھا ٹک کے سا تھ ہی عطا ماچھی کے پکوڑے ملتے تھے اور ساتھ ہی جمیل مچھلی تلا کرتا تھا ، بعد میں جمیل کے ساتھ یہ سا نحہ ہوا کہ وہ مرگی کے مرض میں مبتلا ہو گیا ۔ ایک دن کڑھا ئی میں مچھلی تل رہا تھا کہ مر گی کا دورہ پڑا اور جمیل سید ھا گرم تیل کی کڑھائی میں جا گرا جس سے جمیل کے بدن کا اگلا حصہ اور ایک بازو بری طرح جھلس گیا جمیل نے خا صا علاج کرا یا مگر افا قہ نہ ہوا ایک وہ صبح پا کستان کے دفتر آ گیا اور یوں جمیل میرا دوست بن گیا صبح پا کستان ان دنوں روزنا مہ اخبار تھا وہ صبح پا کستان بیچنے لگا ہم نے اس کا علاج کرا یا اس کے علاج میں نواب انیس اور اس وقت کی پرنسپل گرلز کالجمحتر مہ طلعت علی نے بھی جمیل کے علاج میں معاونت کی کچھ افا قہ بھی ہو ا مگر سچی بات یہ کہ اسے بہتر علاج نہ ملسکا ایک دن اس کی طبیعت خا صی خراب ہو گئی ہم نے اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا لیکن شا ئد وہ زند گی کے مشکل سفر سے تھک چکا تھااور یوں ایک دن وہ مر گیا مد نی فلور ملز کے چو ہدری احسان میرے دوست تھے اللہ بخشے نیک اور مخیر انسان تھے میں نے انہیں فون کیا وہ آ ئے انہوں نے کفن دفن کے اخراجات جمیل کی اہلیہ کو دئیے اور یوں ہم نے جمیل کی لاش کو ہسپتال سے اس کے گھر پہنچا یا ۔ جمیل ایک خودار اور متوکل انسان تھا وہ کہا کرتا تھا کہ” صاحب اللہ کتنا کریم ہے بندے کو بکھا اٹھاوے ہے اور رجا کے سلا وے ہے ۔” میں نے جمیل کی وفات پر ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ” اور جمیل مر گیا ” میں اس کے علا وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔
تحریر : انجم صحرائی