counter easy hit

شب و روز زندگی قسط 10

PML N

PML N

تحریر : انجم صحرائی
یہ بات مرحوم کے مخالف بھی مانتے ہیں کہ مرحوم ملک غلام محمد سوگ ایک سوجھ بوجھ رکھنے والے سیا سی کارکن تھے ان کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے تھا مگر اپنی محنت لگن اور جدو جہد سے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ میں اتنا مقام بنا یا کہ ہو نے والے انتخابات میں میاں نواز شریف اپنے اس محنتی اور ہمہ وقتی مسلم لیگی کارکن کو نظر انداز نہ کر سکے ملک غلام محمد سواک نے مسلم لیگ (ن ) کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور کا میاب ہو ئے ۔ ملک غلام محمد سواگ چو نکہ خود سیا سی کارکن تھے اس لئے وہ سیا سی کارکنوں کا بڑا احترم کرتے تھے میرے سا تھ بھی ان کے محبت کے تعلقات تھے چو نکہ ہماری سیا سی آ راء مختلف ہو تی تھیں اور مختلف تقریبات میں عمو ما مجھ سے انہیں تنقید ہی سہنا پڑتی تھی مگر انہوں نے کبھی اختلا ف رائے کا برا نہیں منا یا ۔ جن دنوں ہم چند دوستوں نے پیشنٹ ویفیئر سو سا ئٹی قا ئم کی ان دنوں کی بات ہے وہ خصو صی طور پر مجھے ملنے آ ئے اور مجھے مسلم لیگ جوائن کر نے کی دعوت دی مگر میں تحریک استقلال کا نہ صرف ممبر تھا بلکہ عہدیدار بھی تھا اس لئے میں نے شکریہ کے سا تھ معذرت کر لی ۔ ایم پی اے ملک غلام محمد سوگ کو ان کے گھر میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا تھا جب یہ ہو لناک وا قعہ پیش آ یا سارا شہر سو گوار تھا۔

ابتدا میں حکومت کی طرف سے بہت بلند بانگ دعوے کئے گئے کہ قا تلوں کو جلد گرفتار کر کے قرار وقعی سزا دی جا ئے گی مگر کچھ بھی نہ ہوا نہ قا تل گر فتار ہو ئے اور نہ ہی قا تلوں کو قرار واقعی سزا ملی ۔ انہی دنوں کی بات ہے میاں نواز شریف جو اس وقت وزیر اعظم تھے سواگ شریف مرحوم کی فا تحہ خوانی کے لئے تشریف لا ئے دیگر صحا فیوں کے ساتھ میں اور ملک مقبول الہی بھی وہاں موجود تھے ہمیں امید تھی کہ وزیر اعظم اس دورے پر مقا می صحا فیوں سے ملا قات بھی کریں گے اور بات بھی ۔ مگر ایسا نہیں ہوا فاتحہ خوانی اور دربار شریف پر حا ضری کے بعد میاں صاحب کا قا فلہ لا ہور رونگی کے لئے ہیلی کا پٹر کی جانب چلا تو مجھے بڑی ما یو سی ہو ئی میں نے ملک مقبول الہی سے کہا کہ جیسے بھی ہو ہمیں فورا ہیلی پیڈ پہچنا چا ہیئے ۔ اگر ہم ہیلی پیڈ سے پہلے وہاں پہنچ گئے تو ہم کسی طرح میاں صاحب کو متوجہ کر لیں گے اور یوں ایک آ دھا سوال جواب بھی ہو ہی جا ئے گا ۔ مقبول نے میری بات سنتے ہی اپنی موٹر با ئیک ہیلی پیڈ کی جانب بڑھا دی اور یوں ہم وزیر اعظم کے قا فلے سے پہلے ہیلی پیڈ والی جگہ پر پہنچ گئے ،آگے پو لیس سیکیورٹی تھی ہمیں ڈیوٹی پر مو جود پولیس اے آیس آ ئی نے روک لیا لیکن جہاں ہم ٹہرے تھے وہاں سے اگر میں بلند آواز سے بو لتا تو وہ بات وزیر اعظم کو سنا ئی دے سکتی تھی جو نہی میاں صا حب گا ڑی سے اتر کر ہیلی کا پٹر کی جانب بڑھے میں ابھی آ گے بڑھ کر کچھ کہنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک کو نے سے کسی کی چیخ و پکار سنا ئی دی میں نے جو مڑ کر دیکھا تو پو لیس والے زمین پر لیٹے ایک بزرگ مسلم لیگی کارکن یو نس کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے ۔ ہوا یہ تھا کہ بزرگ کا رکن اپنے قا ئد سے ملنا چا ہتا تھا مگر پو لیس بہا در کو یہ منظور نہیں تھا کہ کو ئی ان کے ہو تے ہو ئے وزیر اعظم کے سا منے حد ادب سے بڑھے سو جو نہی بزرگ کا رکن نے اپنے قائد سے ملنے کے لئے قدم بڑھا ئے پولیس کی فرض شنا شی نے اسے گریبان سے پکڑ کر پہلے زمین پر گرایا اور پھر واپس گھسیٹنا شروع کر دیا او رد عمل میں کارکن نے اس ظلم و نا انصافی پر حلق سے کفن پھاڑ طریقے سے زور زور سے چلا نا شروع کر دیا ۔ کارکن کی اس چیخ و پکار سے سارا ما حول ہی بدل گیا وزیر اعظم کے ہیلی کا پٹر کی جانب بڑھتے قدم رک گئے اور انہوں نے بڑے غصے سے پو چھا یہ کیا ہو رہا ہے ۔ میاں صاحب نے قدرے واپس مڑتے ہو ئے زمیں پر گرے کارکن کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا کہ اسے میرے پاس آ نے دو ۔ یہ سنتے ہی پو لیس والوں نے یو نس کو چھوڑ دیا اور وہ آ گے بڑھا اور اس نے اپنے قا ئد سے جو کہنا تھا کہا مگر اس وا قعہ نے ہمیں بھی وزیر اعظم کے قریب ہو نے کا موقع دے دیا اور ہم بھی میاں نواز شریف وزیر اعظم پا کستان سے ایک دو سوال پو چھنے میں کا میاب ہو ہی گئے۔

قا رئین کرام ! زند گی کا سفر ایک بڑے زک زیگ کے ما نند ہے یہ سفر کبھی ناک کی سیدھ میں نہیں کیا جا سکتا کئی سیدھے راستے ،کئی چو راہے ،کئی موڑ ،کئی گھا ٹیاں اور کئی دلد لیں ۔ کسی نے کیا حقیقت بیان کی ہے کہ جب لو گوں کو پتہ چلتا ہے کہ زند گی کیا ہے ؟ تو یہ آ دھی خرچ ہو چکی ہو تی ہے ۔یادوں کی بارات کے خالق جو ش ملیح آ بادی نے زندگی کے بارے ہی کہا ہے کہ۔
زند گی ایک خواب پریشان ہے کو ئی کیا جا نے
موت کی لر زش مژگاں ہے کو ئی کیا جا نے
را مش و رنگ کے ایوان میں لیلا ئے حیات
صرف اک رات کی مہمان ہے کو ئی کیا جا نے
گلشن زیست کے ہر پھول کی رنگینی میں
دجلہ خون رگ جاں ہے کو ئی کیا جا نے

تو دوستو زند گی ہمیں بھی اک “خواب پریشان “ہی لگی ۔ شب وروز کے کئی پڑ ھنے والوں نے مجھے لکھا کہ آپ نے اپنے خاندان بارے کچھ نہیں لکھا بہت سوں کی تو یہ رائے تھی کہ آپ کو” شب و روز زند گی “کا آ غاز ہی اپنے خا ندانی بیک گرا ئونڈ سے کر نا چا ہیئے تھا ، ان دوستوں کی رائے سر آ نکھوں پر مگر مجھے ان کی بات نے پریس کلب میں ہو نے والی ایک تقریب یاد دلا دی جس میں مجھے بھی گفتگو کا مو قع ملا تھا ۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ تین سال قبل جب مہر ارشدحفیظ سمرا پہلی بار ڈسٹرکٹ پریس کلب کے صدر بنے تب ایک بڑی پر وقار تقریب حلف برداری پریس کلب ہال میں منعقد ہو ئی مجھ سے پہلے ایک مقرر علا قائی صحا فیوں اور صحا فت بارے اپنے تحفظات اپنے مخصو ص انداز میں پیش کر چکے تھے جس کا مطلب اس کے علا وہ کچھ نہیں تھا کہ اخبار ایک بے کار کا روبار اور صحا فت ایک فضول مشغلہ ہے اور ہمارے علا قائی صحا فیوں کو تو سوائے جھک مار نے کے کچھ نہیں آ تا ان کے بعد جب مجھے گفتگو کے لئے بلا یا گیا تب میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں اپنے سا معین سے سوال کیا میں گذشتہ 36 سا لوں سے لیہ میں متحرک و فعال زند گی گذار رہا ہوں کیا کو ئی بتا سکتا ہے کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آ یا ہوں اور کس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں اور میرے باپ کا نام کیا ہے۔

سینکڑوں کے اس پنڈال میں ما سوائے چند لو گوں کے میرے بارے کو ئی بھی نہیں جا نتا تھا کہ میرا خاندا نی شجرہ کیا ہے ۔ ان کی خا مو شی دیکھتے ہو ئے میں نے کہا کہ میرا تعارف اخبار ہے اور اللہ کریم نے مجھے جو بو لنے اور لکھنے نے صلا حیت بخشی ہے وہی میری شنا خت ہے میں انہی کی وجہ سے جانا جا تا ہوں اور پہچا نا جا تا ہوں۔ کہنا میں یہ چا ہتا ہوں کہ انسان سماج اور معا شرہ میں اپنے کام اور کردار کی وجہ سے اپنی جگہ بنا تا ہے کسی زما نے میں کام و کردار کے متبادل کرتوت اور کار نا مے کے الفاظ استعمال ہوا کرتے تھے۔ ہمارے کر توت اور کار نا مے ہی ہمارا تعارف بنتے ہیں ہماری پہچان اور شنا خت بنتے ہیں ۔ حسب و نسب پہ بات ہو ہی جا ئے گی مگر پہلے مضمون سیا ست مکمل کر لیں ۔ شا ئد میں نے کہیں لکھا ہے کہ اماں جان با نی جما عت اسلا می مو لا نا ابو لا علی مو دو دی سے بہت متا ثر تھیں وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر انہوں نے نا ظرہ قر آن مجید کے ساتھ ساتھ مو لا نا اشرف تھا نوی کی شہرہ آ فاق تصنیف بہشتی زیور اور مو لا نا مودودی کی دینیات ، پردہ اور دیگر مذ ہبی کتا بیں بھی پڑھی تھیں۔

اماں جی مو لا نا مودودی سے اتنی متا ثر تھیں کہ انہوں نے منصورہ مسجد کے لئے اپنا ایک چا ندی کا ہار فروخت کر کے چالیس روپے چندہ منی آرڈر کرا یا تھا اس چندے کی جورسید مرکز جما عت کی طرف سے بذ ریعہ ڈاک ہمیں ملی تھی اس رسید پراس وقت کے ناظم مالیات فقیر حسین کے دستخط تھے یہ رسید اب بھی میرے پاس مو جود ہے یہ بھی ایک منفرد بات ہے کہ جب اماں بیمار پڑیں تب انہوں نے مو لا نا مودودی کے نام لکھے ایک خط میں اپنی بیماری کی اطلاع دیتے ہو ئے دعا ئے صحت کی در خواست کی تھی ۔ جس کے جواب میں مو لا نا محترم کی جانب سے آ نے والے ایک خط میں اماں کی صحت یا بی کی دعا کی گئی تھی اور بتا یا گیا تھا کہ آپ کی صحت یا بی کے لئے میں اور مر کز کے تما م سا تھی دعا گو ہیں لیکن جب یہ خط مجھے مو صول ہوا اس وقت تک اماں تمام بیماریوں ، دکھوں اور تکلیفوں کو شکست دیتے ہو ئے صحت یاب ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھیںجس کے جواب میںمیں نے اماں کے انتقال کی اطلاع ایک خط مو لا نا محترم کی خد مت میں ارسال کیا تو چند ہی دنوں بعد مو لا نا محترم کی جانب سے اماں کے انتقال پر تعزیت کا خط میرے نام مو صول ہوا ۔ چھوٹے سے سادہ لیٹر پیڈ پر اردو ٹائپ میں لکھے گئے یہ دو نوں خطوط جن پر مو لانا محترم نے اپنے ہا تھ سے ابو الا علی لکھ کر دستخط کئے ہو ئے ہیں یہ خط بھی میری اماں کا میرے لئے چھوڑا ہوا ترکہ ہیں جو میں نے بڑے اہتمام سے سنبھا لا ہوا ہے شا ئد تحریک اسلا می اور مو لا نا مودودی کے ساتھ اماں کا یہی رو حانی تعلق مجھے شا ئد مجھے بھی بچپن سے ہی جماعت کے قریب لے آ یا تھا ۔مجھے کم عمری میں ہی جماعت کے اجلاسوں میں شر کت کا موقع ملا ۔مولانا مودودی ، سید اسعد گیلا نی اور مو لانا گلزا احمد مظا ہری ، ملک غلام محمد بھچر جیسے بزر گوں کو ملنے ، سننے اور پڑ ھنے کا مو قع ملا توجماعت کا رنگ اور زیا دہ غالب ہو گیا۔با قی اگلی قسط میں

Anjum Sehrai

Anjum Sehrai

تحریر : انجم صحرائی