تحریر : انجم صحرائی
مگر مجھے اتنا پتہ ہے کہ ڈی سی آفس کی جا نب سے ا ن تحقیقات کی بنیاد پر حکام بالا کو بھجوائے جا نے والی رپورٹ میں میرے مو قف کی تا ئید کی تا ئید کی گئی تھی ۔ ہو نے والی انکوا ئری میں اسسٹنٹ ایڈ منسٹریٹر اوقاف کی جانب سے بھیجے گئے ایک جوا بی خط No . ETP/LY/MZG / 2000/499 میں تحریر کیا گیا تھا کہ اس وقت سکول کے پا س ایم سی ہا ئی سکول کے پاس 39 k-05 m جگہ مو جود ہے جو اب 2014 میںسمٹ کر 25k – 06 m مر لے رہ گیا ہے ۔ یہ انکشاف شیخ علا ئوالدین ایم پی اے کی جا نب سے پو چھے گئے سوال کے جواب میں ڈی سی او لیہ کی جا نب سے کمشنر ڈی جی خان آفس بھجوائے جانے والے ایک مرا سلہ سے ہوا ۔مرا سلہ کے ایک پیرا گراف میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ۔۔۔۔۔ “یہ امر بھی قا بل ذ کر ہے کہ انتظا میہ کمیٹی ہندو بھرا تری ہا ئی سکول کی ملکیت چک نمبر123-B/TDA میں 89k-08m تھی اس ملکیت میں سے 32k-18m مرلے بذ ر یعہ انتقلات بحق ) ETPB ) منظور ہو چکے ہیں اور بقایا 56k-10m رقبہ اندر اربن ایریا کمر شل اور رہا ئشی یو نٹ میں مو جود ہے لیکن لوگ قا بض ہیں ۔ مرا سلہ میں کہا گیا ہے کہ بوقت تیا ری بندو بست مثل حقیقت چک نمبر 123-B / TDA میں کھا تی نمر 92 نمبر خسرہ 107قا ئم کر کے اس خسرہ کا رقبہ462k-12m درج ریکارڈ کرایا گیا 56k-10m رقبہ جو کہ بھرا تری ہا ئی سکول کی ملکیت تھی وہ نمبرخسرہ 107ملکیتی ادارہ تر قیا تی تھل (TDA)میں شا مل کر دی گئی “۔
قو می اور لو کل میڈ یا نے ہمیشہ اس مسئلہ کو اجا گر کر نے میں اپنا مثبت رول کردار ادا کیا ہے ، سال 2002 سے میں اس مو ضوع پر مسلسل لکھ بھی رہا ہوں اور بول بھی رہا ہوں ۔ بھرا تری ٹرسٹ کے حوالے میرا یہ
لکھنا اور بو لنا کسی پر احسان نہیں بلکہ یہ قرض ہے اس شہر کا اور اس مادر علمی کا جس سے میں نے بھی علم و دا نا ئی کی رو شنی حا صل کی ہے میرے علا وہ اسلام آ باد میں مقیم لیہ کے صحا فی خضر کلا سرہ نے نو مبر 2012 میںبھرا تری ٹرسٹ لیہ کے بارے ایک مضمون “تعمیر میں انصاف رکھنے کی خواہش ” تحریر کیاجس میں انہوں نے بھراتری ٹرسٹ با رے میری ان کا و شوں کا ذکر کرتے ہو ئے سا بقہ چیف جسٹس آف پا کستان سے سو مو ٹو ایکشن لینے کی اپیل کی گذ شتہ سال لیہ سے شا ئع ہو نے والے نئے ہفت روزہ اخبار عکس تھل کے پہلے شما رے میں لیہ کے سینئر صحا فی فرید اللہ چو ہدری کی ایک فل پیج سٹوری اس مو ضوع پر شا ئع ہو ئی ۔ مقا می ایف ایم ریڈ یو89 سے نشر ہو نے والے ہفتہ وار پروگرام فورم 89 جس کی میز با نی کا اعزاز راقم کو حا صل ہے میں بھی متعدد بار اس مو ضوع کو زیر بحث لا یا جا چکا ہے۔
لیہ میں اپنا بچپن گذارنے اور ایم سی ہا ئی سکول سے میٹرک کر نے والے ڈاکٹر فیا ض بخاری آج کل اٹک میں مقیم ہیں ۔ انٹر نیٹ پر بھراتری ہا ئی سکول بارے میری ایک تحریر ان کی نظر سے گذ ری جس کے بعد انہوں نے نا معلوم کیسے میرا مو با ئل نمبر لے کر مجھ سے رابطہ کیا کہنے لگے کہ ہم بھرا تری سکول میں دہم کلاس کے کئی کلاس فیلوز سکول میں ایک کلاس لگانا چا ہتے ہیں ، ہم چا ہتے ہیں کہ ہماری کلاس کے سبھی ہم جماعت اکٹھے ہوں اور اپنے دور کے اساتذہ کو بھی دعوت دیں ۔ سارا دن کی کلاس ہو گی ۔ پیر ئیڈ ہوں گے ۔ اسا تذہ حاضری لگا ئیں گے اور ما نیٹر بھی اپنا کام کرے گا ۔ آپ ہمارے سکول بارے بہت اچھا کام کر رہے ہیں آپ بحیثیت گیسٹ ہماری کلاس میں تشریف لا ئیں اور بھراتری سکول کی تا ریخ اور مقد مہ سے ہمیں آ گاہ کریں ۔ میں نے کہا ٹھیک میں آ ئوں گا ۔ مقررہ دن میں وہاں پہنچا تو زبردست ما حول تھا ۔ تیس سال پہلے کے ا سا تذہ بھی مو جود تھے اور طلباء بھی ۔کئی اسا تذہ ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور کئی طلباء بہت بو ڑھے ۔ مگر کلاس بھی لگی اور حا ضری بھی ہو ئی ۔ اس کلاس کے چند طلبا ء جنہیں میں جا نتا تھا ان میں اٹک سے ڈاکٹر فیاض بخاری ، ملتان سے ایف آئی اے کے غلام نبی خان ،جہلم سے ایس ای کینال زاہد رفیق ، لا ہور سے پلا ننگ اینڈ ڈویژن کے مزمل حسین ، لیہ سے کرنل (ر) مشتاق اعوان ، ڈاکٹر میجر (ر ) امیر محمد سمرا ، ریٹا ئرڈ تحصیلدار عباس خان اور احمد خان بھی مو جود تھے ۔ میں اس انو کھی کلاس میں واحد گیسٹ تھا ۔ جس نے بھراتری ٹرسٹ اور بھراتری سکول کی تاریخ بارے گفتگو کی ۔ میری گفتگو کے بعد شر کا ئے کلاس نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنے اس مادر علمی کے ساتھ ہو نے والی ان زیا دتیوں بارے آواز اٹھا ئیں گے یہ وعدہ کتنا ایفاء ہوا معلوم نہیں ۔لیکن بہر حال یہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات تھی۔
اس کلاس کے اسا تذہ میں پی ٹی ما سٹر کرم حسین ، جام کرم الہی بھی تھے اور شیخ محبوب الہی بھی شا مل تھے ۔ ایم سی ہا ئی سکول کے سینئر سٹوڈنٹ کی اس انو کھی کلاس کو پرنٹ میڈ یا اور الیکٹرانک میڈ یا نے بھر پور کوریج دی ۔دنیا ٹی وی کا پروگرام حسب حال میں بھی عزیزی نے اس ایونٹ پر اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کیا ۔لیہ سے ہجرت کر کے پا نی پت انڈ یا میں جا بسنے والے ڈحینگرا خاندان نے وہاں بھی لیہ بھراتری ایجو کیشنل سو سا ئٹی کے تحت علم کی شمعیں روشن کرنے کا عظیم کام جا ری رکھا ۔ انہوں نے اس سو سا ئٹی کے تحت کئی علمی درسگا ہیں قا ئم کیں مگر افسوس ہم ان کے قا ئم کئے علمی ورثے کی اس طرح حفاظت نہ کر سکے جیسا حق تھا ۔ تو جناب یہ ہے 123-B/TDA کا کھوہ کھا تہ اگر واقعی کو ئی منصف چا ہتا ہے کہ قیام پا کستان سے نصف صدی قبل بھرا تری ٹرسٹ کی طرف سے قا ئم کیا جا نے والا یہ تعلیمی ادارہ بھرا تری ہندو ٹرسٹ کی اس وقف ارا ضی سے مستفیذ ہو تو اسے چک 123/B ٹی ڈی اے کا یہ کھو ہ کھا تہ کھو لنا پڑے گا۔
بھراتری ٹرسٹ با رے اس وقت کے چیف ایگز یکٹیو جزل پر ویز مشرف کو دی جا نے والی در خواستوں پر تحقیقات بھی ہو ئیں مقا می ضلعی انتظا میہ نے رپورٹ مرتب کر کے ا تھا ر ٹیز کو بھی بھجوا ئیں مگر ہوا کیا ہمیں اس کی خبر نہ ہو سکی ۔ لیکن کچھ ہوا ضرور تھا جس کا اظہار ملک غلام حیدر تھند نے مجھ سے ایک ملا قات میں کیا ۔ یہ ملا قات میرے گھر میں یوں ہو ئی کہ مشرف دور میںہو نے والے بلد یا تی الیکشن میں میری مسز کنیز فا طمہ یو نین کو نسل نمر ١ لیہ سے جزل کو نسلر منتخب ہو ئیں غالبا تحصیل نظامت کے الیکشن تھے کہ میرے پاس محمد نعیم اور عبد الطیف کھو کھر آ ئے اور انہوں نے بتایا کہ ملک غلام حیدر تھند آپ کے گھر آنا چا ہتے ہیں ۔ میں ان دنوں دل کی تکلیف کے با عث صاحب فراش تھا میں نے انہیں معذرت کرتے ہو ئے کہا کہ ہم نے ہارٹ سر جری کے لئے اے ایف سی راولپنڈی جا نا ہے اس لئے ہم الیکشن کے دن لیہ میں نہیں ہوں گے اور یوں ووٹ بھی کا سٹ نہیں کر سکیں گے اس لئے ملک صاحب سو بار تشریف لا ئیں مگر ہم ان کی تو قعات پر پورا نہ اتر سکیں گے ۔ ایک دوست بو لے کہ اگر آپ ووٹ کا سٹ کر لیں تو ووٹ کا سٹنگ کے بعد آ پ کے را ولپنڈی جا نے کا خصو صی انتظام بھی کیا جا سکتا ہے میں نے شکریہ ادا کرتے ہو ئے کہا کہ اگر ایسا ہو بھی جا ئے تو بھی معذرت کہ ہم تھند صاحب کے امیدوار کو ووٹ نہ دے سکیں گے۔
دوست میرا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے تھوڑی ہی دیر گذری تھی کہ ملک غلام حیدر تھند مو ٹر سا ئیکلوں کے ایک قا فلے کے ساتھ میرے گھر پہنچ گئے اور آ تے ہی کہنے لگے کہ میں ووٹ ما نگنے نہیں آپ کی عیادت کر نے آیا ہوں ۔مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگی میں نے کبھی بھی ملک غلام حیدر تھند کو ووٹ نہیں دیا اس کے با وجود وہ میری عیادت کر نے آ ئے یہ ان کا بڑا پن تھا یہاں یہ بات قا بل ذکر ہے کہ ہم ساری زند گی جن مقا می سیا ستدا نوں کی ڈفلی بجا تے رہے انہیں میرے دو سالہ بیماری کے دوران میری عیادت کی تو فیق ہی نہیں ہو ئی ۔ خیر دوران گفتگو تھند صاحب نے چک مذ کور کا قصہ بھی چھیڑا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے اس ایشوز کی وجہ سے انہیں شو گر ہو ئی ہے مجھے ان کی بات سن کر خا صی تکلیف ہو ئی میں نے پو چھا ملک صاحب ! میری ہارٹ سر جری ہے آ پ مجھے سچ سچ بتادیں کہ کیا چک 123/B ٹی ڈی اے کا نو ٹیفکیشن ہوا ہوا ہے اگر ایسا ہے تو میں آپ سے معذرت کر لوں گا میری یہ بات سن کر تھند صاحب خاموش رہے اور کو ئی جواب نہیں دیا ۔ میں نے انہیں وضا حت کی کہ میری کسی بھی در خواست میں میں نے انہیں نا مزد نہیں کیا ۔میں نے تو حکومت کے ادارے محکمہ ٹی ڈی اے اور محکمہ مال کو اس فراڈ اور بوگس چک کے قیام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ اب تحقیقات میں کیا ہو تا ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
تحریر : انجم صحرائی