تحریر : انجم صحرائی
اسی دور میں ہم نے دو یاد گار فنکشن کئے یہ دو نوں فنکشن ہسپتال کے سبزہ زار میں ہو ئے پہلے فنکشن کے صدر تقریب فیصل تحسین میمن ڈی سی تھے اور مہمان خصو صی شیخ فیض رسول تھے یہ ایک بھر پور فنکشن تھا جس میں شہر بھر کے تقریبا سبھی طبقات کے نما ئندہ لوگ شریک ہو ئے مہمان خصو صی شیخ فیض رسول نے اپنی مختصر سی تقریر میں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کے لئے ایک ہزار روپے گرا نقدر عطیہ کا اعلان کیا انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کی دوسری تقریب خواتین کی ہو ئی اس تقریب کا مو ضوع “خواتین کے طبی مسا ئل اور صحت کے تقا ضے ” تجویز کیا گیاتقریب کی صدارت مسز شہناز فیصل بیگم ڈی سی نے کی جب کہ تقریب کی مہمانا ن خصو صی بیگم ایس او غوری اور ڈاکٹر یا سمین مظفر اعوان تھیں ۔ ڈاکٹر مظفر یا سمین اور ان کے شو ہر ڈاکٹر مظفر اعوان کی انہی دنوں لیہ ہسپتال میں تقرری ہو ئی تھی یہ فنکشن بھی لیہ کی تا ریخ کا ایک بڑا اور یاد گار فنکشن تھا اس فنکشن میں خواتین کی اتنی زیادہ تعداد شریک ہو ئی کہ بیگم ڈی سی جو تقریب کی صدارت کر رہی تھیں نے اپنے خطاب میں اس بات کا خصو صی ذکر کیا ۔ میں اس تقریب کی کا میابی کا سہرا بلا شبہ ڈاکٹر مظفر یا سمین کو ہی دوں گا جن کی معا ونت سے ہم وہ تقریب منعقد کر سکے تھے ۔ ان دنوں ڈاکٹر مظفر اعوان اور ڈاکٹر مظفر یا سمین نے ہمیں بھر پور حو صلہ دیا وہ ہمارے پرا جیکٹ میں ہمیشہ آ گے آ گے ہو تے تھے مجھے یاد ہے ایک بار ڈاکٹر مظفر اعوان نے اپنی پوری تنخواہ ہمیں عطیہ کی مگر اس کی ادا ئیگی ایسے ہو ئی کہ جب بھی کسی مریض کو ان ادویات کی ضرورت ہو تی جو ہسپتال میں دستیاب نہ ہو تیں ہم اسے داکٹر مظفر اعوان کے پا س بھیج دیتے اور ڈاکٹر صاحب عطیہ کی ہو ئی تنخواہ کی مد میں سے اس مریض کو ادویات خرید دیتے ۔ اور یوں یہ سلسلہ ایک عر صے تک چلتا رہا۔
ہم اس زما نے میں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کی ما ہا نہ آمدوخرچ رپورٹ بھی شا ئع کیا کرتے تھے اس رپورٹ میں ان لو گوں کے نام بھی شا ئع ہو تے جو ہمیں اپنا ما ہا نہ چندہ ادا کرتے اور ان مریضوں کے نام بھی شا ئع کئے جا تے جنہیں امداد مہیا کی جا تی مر یضوں کے نام اس لئے شا ئع کئے جا تے تا کہ انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کو عطیات دینے والوں کو بھی اپنے دئیے گئے عطیات کے استعمال کا علم ہو سکے ۔ یہ رپورٹ صرف ممبران اور عطیہ دہند گان کو ہی بذ ریعہ ڈاک بھجوا ئی جا تی ۔ ایک دن یوں ہوا کہ میں آ فس میں مو جود تھا اور اس شان سے کہ میڈ یکل آ فیسر صاحب کے دفتر کی بڑی سے میز کے ساتھ رکھی کر سی پر کر سی کو باپ کی جا گیر سمجھ کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک انتہا ئی نفیس اور خو بصورت صاحب اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تشریف لا ئے نہ انہوں نے تعارف کرایا اور نہ ہی ہم نے اپنا آپ بتا نے کی ضرورت محسوس کی محترم تا زہ تازہ ایک سر کاری محکمہ سے ریٹا ئرڈ ہو ئے تھے اور وہ سمجھے کہ ہم بھی شا ید ایک سر کا ری افسر ہیں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان بارے چھپی رپورٹ میز پر پڑی تھی رپورٹ پر ہماری تصویر بھی شا ئع ہو ئی تھی حمید سلیمی صاحب کے ساتھ۔
مگر شا ئع ہو ئی وہ تصویر ہماری اصلی تصویر تھی سر پر خا صے بڑے گھنگھریالے الجھے بال اور بے تحا شا بڑھی ہو ئی داڑھی ، ما ننے کی بات تھی کہ رپورٹ پر چھپی تصویر اور کرسی پر بیٹھے “صاحب ” میںوا قعی زمیں آسمان کا فرق تھا خیر صاحب ہما رے معزز مہمان نے ہماری تصویر سے مزین رپورٹ اٹھا ئی دیکھا اور ایک مو ٹی سی گا لی دے کر کہنے لگے یہ انجم صحرائی ہے بڑا ۔۔۔ ہم ہکا بکا مغلظات سن کر ایسا لگا جیسے کسی نے گرم تنور میں پھینک دیا ہو خا صے ضبط او حو صلہ کے بعد عرض کیا صاحب !کیا آپ اس تصویریر والے بندے کو جا نتے ہیں فر ما نے لگے کیوں نہیں ابھی پھا ٹک پر ملا تھا اور اپنے ساتھی کی طرف اپنا سر گھما یا اور پو چھا “کیوں اوئے ہنیں ملا ہا ئی نا پھا ٹک تے ” سا تھی نے بھی اپنا تر بوز نما سر اتنی زور سے اوپر نیچے ہلا یا کہ میں ہا تھ ملتا رہ گیا ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ مجھے بھی انجم صحرائی کہتے ہیں جواب ملا “تے شا ئد او کو ئی بیہا انجم صحرا ئی ہو سی ملا تے ہا ئی ہنے پھا ٹک تے سا کوں” ۔۔۔
خوا تین کے فنکشن سے انجمن فلاح و بہبو دی مریضاں کے ہسپتال میں دا خل ان ڈور مریضوں کو بہت فا ئد ہ ہوا ایسے مریض جو باہر دور دراز سے آئے ہو ئے ہو تے تھے بعض گھروں سے ان کے لئے نا شتہ اور کھا نا آ نا شروع ہو گیا ۔ بعض گھروں سے مریضوں کو دودھ بھی فراہم کیا جا تا بہت ایسے مستحق مریض جنہیں بستروں کی ضرورت تھی انہیں انجمن فلاح و بہبو دی مریضان کے بعض دو ستوں کے گھروں سے بستر بھی مہیا کئے گئے اسی زما نے میں ایک منصب نا می ٹی بی کے مریض نے علاج کے لئے ہم سے را بطہ کیا مریض کا گھر برلب لیہ ما ئینر ملک منظور جو تہ کے گھر سے تھوڑا آ گے تھا ، ایک کچے کمرے پر مشتمل اس مکان میں وہ با با اپنی گو نگی بیوی کے ساتھ رہتا تھا اسے کھا نسی اور دمے کی تکلیف ہو ئی تو ڈاکڑز نے اسے ٹی بی قرار دے دیا اور ٹی بی بھی آخری سٹیج والی ۔۔ اس نے علاج معالجے کے لئے ہمارے سا تھ رابطہ کیا میں اسے سا تھ لے کر ایم ایس سے ملا اور اسے ہسپتال میں داخل کر نے کی در خواست کی ایم ایس کہنے لگے کہ ہم اسے ادویات تو فراہم کر سکتے ہیں مگر چو نکہ ہما رے ہسپتال میں ٹی بی وارڈ نہیں اس لئے ہم ٹی بی کے کسی مریض کو ہسپتال میں دا خل نہیں کر سکتے ٹی بی ایک مہلک بیماری ہے علاج کا تسلل اور اچھی غذا سے ہی مریض کی صحت یا بی ممکن ہے ہم نے ایم ایس سے عرض کیا کہ مریض کی حالت خا صی خراب ہے کمزوری بھی ہے گھر میں تو اس کے لئے علاج کا تسلسل ممکن نہیں ہو گا آپ اجا زت دیں تو ہم اس مریض کا بستر ہسپتال کے با ہر با ئونڈری وال کے اندر لگا دیتے ہیں ڈاکٹرز بھی روز دیکھ لیا کریں گے اور دوائی کا بھی نا غہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ اس مریض کا بستر با ہر لگا دیں مجھے کو ئی اعتراض نہیں ڈاکٹر اور سٹاف اس کی خبر گیری کرتے رہیں گے ، اس وقت نہ تو ہسپتال میں مسجد تعمیر ہو ئی تھی اور نہ ہی نر سنگ سکول بنا تھا ہسپتال کے شمالی گیٹ سے ایک کچہ را ستہ تھا جو ہسپتال کا لو نی میں جا نے کے لئے استعمال ہو تا تھا اس پگڈنڈی پر شیشم کے درخت ہوا کرتے تھے گر میوں کے دن تھے اجازت ملتے ہی ہم نے اس کا بستر شیشم کے درخت کی چھا ئوںتلے لگا دیا ڈاکٹر صاحب فر ما نے لگے کہ علاج کے لئے صرف دوائی کا فی نہیں اسے اچھی خوراک بھی چا ہئیے ۔کم ازکم آ دھا کلو دودھ ، دو انڈے اور چھو ٹے گو شت کا سالن اور فروٹ اس کے علا وہ ۔ خا صا بڑا چیلنج تھا میں نے زبیر شفیع کے توسط ان کی والدہ محترمہ بیگم ایس ڈی او سے را بطہ کیا میری ساری کتھا سن کر کہنے لگیں کہ کیوں نہیں دودھ اور انڈے بھی ہمارے ذمے،نا شتہ اور کھا نا بھی گھر سے جا یا کرے گا ۔ ایسا مسئلہ حل ہوا کہ چند ہی ہفتوں کے بعد ٹی بی کا یہ مریض مکمل صحت یاب ہو کر ایک بار پھر مزدوری کر نے کے قا بل ہو گیا ۔ یہاں ایک اور بات بتا تا چلوں میں صبح شام اسے دیکھنے اور ملنے ہسپتال جا تا میں جب بھی جا تا اس کے پا س فروٹ وافر مقدار میں مو جود ہو تے کئی دنوں تک مجھے سمجھ نہیں آ ئی کہ یہ فروٹ کہاں سے آتا ہے پھر ایک دن پتہ چلا کہ اس پرا ئیویٹ مریض کو فروٹ ہسپتال کی میڈیم نسیم سرور ،دیگر نر سز اور سٹاف مہیا کر تے ہیں صحت یا بی کے بعد منصب کئی برس زندہ رہا جب بھی ملتا دعا ئوں کے ٹو کرے مجھے دیتا
اس کی بیوی گو نگی تھی وہ بھی ایک عرصے تک میرے گھر آ تی رہی جب بھی آ تی نہ سمجھ آ نے والی زبان میں چیخ چیخ کر ہاتھ ا ٹھا کر اتنی دعا ئیں دیتی کہ دعا ئیں دیتے دیتے بسا اوقات اس کی آ نکھوں میں آ نسو آ جا تے میرا ما تھا چو متی میرے بچوں کا ما تھا چو متی ۔ شا ئد یہ وہی گو نگی دعا ئیں ہی ہیںجو زند گی کے اس مشکل سفر میں میرا زاد راہ بنی ہیں ۔ انجمن فلاح و بہبودی مریضان کے حوالے سے چند نا خو شگوار یادیں بھی آپ سے شیئر کر لوں ہوا یوں کہ اسی زما نے میںہو نے والے بلدیا تی الیکشن میں میں نے بھی ضلع کو نسل کے امیدوار کی حیثیت سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا تھا میرا حلقہ یو نین کو نسل کوٹ سلطان سمیت تین یو نین کو نسلوں پر مشتمل تھا یہ ایک ملٹی حلقہ تھا جس میں دو ممبران ضلع کو نسل نے منتخب ہو نا تھا ۔ انتخابات میں میرے علاوہ جو امیدوار حصہ کے رہے تھے ان میں سید فیض الہی شاہ ، سردار حسنین خان تنگوانی ، سردار قیصر خان تنگوانی ،مہر احمد علی واندر ایڈ وو کیٹ ، ملک عبد المجید بھٹہ ایڈ وو کیٹ ،ملک عبد الرحمن سہو ،سردار خدا بخش خان دستی کے نام مجھے یاد ہیں ۔ان اتخابات میں حصہ لینے والے میرے علا وہ سبھی امیدوار معروف سیا سی گروپوں یا بڑے سیا سی خانوادوں سے تعلق رکھتے تھے میرا قصہ قدرے مختلف تھا حلقہ میں میرے ذاتی خاندان کے ووٹرز کی تعداد 8 سے 10 کے قریب تھی ان میں تقریبا 7 ووٹ ایسے تھے جن کا تعلق میرے سسرال سے تھا اور وہ لیہ کے رہا ئشی تھے میں نے یہ ووٹ صرف ا پنے ووٹ بنک میں اضا فے کے لئے درج کرئے تھے کوٹ سلطان شہر میں میرے پاس ایک آبا ئی مکان کے علاوہ کو ئی جا ئیداد نہیں تھی اور نہ ہی میرا کو ئی خاندانی سیا سی بیک گراونڈ تھا میرا کو ئی بڑا یا چھوٹا بھا ئی نہیں تھا کوئی چچا زاد ، کو ئی ما موں زاد نہیں تھامیں اپنی فیملی میں با با کے علاوہ اکیلا نو جوان مرد تھا بس ایک کریڈٹ تھا کہ جو نہی شعور کی آ نکھ کھلی اپنے دکھوں کے تنا ظر میں لو گوں کے دکھ دیکھنے ،محسو س کرنے ، سننے اور انہیں بیان کر نے کو اپنا مقصد حیات بنا لیا ۔میں نہیں کہہ رہا کہ میں کوئی فرشتہ سیرت انسنان ہوں ۔۔نہیں ۔۔۔نہیں ۔۔ میں یہ نہیں کہہ رہا میں بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہوں بس بات اتنی سی ہے کہ جس بھوک جس کرب اور جن دکھوں سے گذرا ہوں وہ بھو لتے ہیں ۔ کسی نے کہا تھا کہ۔
یاد ما ضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حا فظہ میرا
مگر میں اس کے بر عکس اپنے ما ضی سے جڑا رہنا چا ہتا ہوں مجھے میرا ما ضی بہت عزیز ہے کہ اس میں اپنے رب پہ اعتماد ، یقین اور جد و جہد کے نہ بھو لنے والے شب و روز ہیں۔۔
تحریر : انجم صحرائی